ذہنی امراض اور جرائم کی سزا

اسلام جرائم کے ارتکاب میں مجرم کو ایک صحیح الدماغ اور صاحبِ ارادہ فرد قرار دے کر اُسے قانوناً و اخلاقاً اپنے فعل کا پوری طرح ذمہ دار قرار دیتا ہے مگر ذہنی و نفسی عوارض کے جدید معالج اور ماہرین جنھیں ( psychiatrist) کہا جاتا ہے وہ سنگین اور گھنائونے جرائم کرنے والوں کو بھی ذہنی مریض کہہ دیتے ہیں اور انھیں جرائم کے شعوری و ارادی ارتکاب سے بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں ۔ یہ نظریہ اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صحیح اور قابلِ تسلیم ہے؟
جواب

موجودہ سائی کٹیری ہی نہیں ، بلکہ موجودہ قانونی اور عمرانی فکر کا سارا رُجحان مجرم کی حمایت اور جرائم کے ساتھ رعایت کی طرف جارہا ہے۔ جن لوگوں کی زندگی مجرمین کے افعال کی شکار ہوتی ہے ان کے ساتھ ہم دردی روز بروز کم ہو رہی ہے اور مجرموں کو سزا دینے پر ان لوگوں کا دل کچھ زیادہ ہی دُکھتا چلا جارہا ہے۔ یہی وہ اصل مُحرک ہے جس کی بنا پر یہ فلسفے بگھارے جارہے ہیں کہ مجرمین دراصل بیمار ہیں ، نہ کہ دانستہ ارتکابِ جرم کرنے والے سماج دشمن (anti-social) لوگ۔ سوال یہ ہے کہ اس فلسفے کے تحت کیا آپ کی سائی کٹیری جرائم کو روکنے یا ان کو کم کرنے میں آج تک کامیاب ہوئی ہے؟ بلکہ میں پوچھتا ہوں کہ جرائم کی روز افزوں ترقی کی رفتار کو یہ لوگ کسی حد کے اندر بھی رکھ سکے ہیں ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اسلامی فقہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ان فلسفوں سے خواہ مخواہ مرعوب ہو کر اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کرے؟
(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)