رسول کا علمِ غیب

ایک عالمِ دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالمِ غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اﷲ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے: عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (الجن ۲۶ -۲۸) ’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سواے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو،تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔‘‘ یعنی ’’وہ غیب کاعالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سواے اس رسول کے جس کو اُ س نے چن لیاہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگراں لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ رسولوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے۔‘‘ مصنف کی اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کوغیب کا صرف اتنا ہی علم دیا جاتا ہے جتنا بندوں کو پہنچانامطلوب ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ انھیں کوئی چیزنہ بتائی جاتی تھی۔کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ آیت جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے،اس معاملے میں فیصلہ کن ہے؟
جواب

مصنف نے دراصل عوا م الناس کے اس غلط خیال کی تردید کرنی چاہی ہے کہ رسول تمام مَا کانَ وَمَا یَکُونُ کو جانتے ہیں اور خدا نے ان کو پورا علم غیب دے دیا ہے‘ حتیٰ کہ جو کچھ خدا جانتا ہے،وہی اس کا رسول بھی جانتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ باطل ہے اور اس کی تردید کی حدتک مصنف کی بات درست ہے۔ لیکن اس کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ رسولوں کو بس اتنا ہی علم غیب دیا گیا تھا جتنا بندوں کو پہنچانا مطلوب تھا۔یہ بات قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہے اور خود اس آیت سے بھی نہیں نکلتی جس سے مصنف نے استدلا ل کیا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یعقوبؑ کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا:
اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (یوسف:۹۶)
’’میں اللّٰہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
علاوہ بریں قرآن مجید کے بکثر ت مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں پر عذاب بھیجنے سے پہلے ان کے نبیوں کو خبریں دے دی گئیں ۔ مگر انھوں نے عذاب کے وقت اور اس کی تفصیلی کیفیت سے اپنی قوم کو مطلع نہ کیا۔حضرت نوح؈ کوتو اتنے پہلے عذاب کی خبر دے دی گئی تھی کہ انھوں نے طوفان آنے سے پہلے کشتی بنالی۔ لیکن انھوں نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ تم پر پانی کا عذاب آنے والا ہے۔پھر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی عربیؐ کو غیب کے ایسے ایسے حالات بتائے گئے تھے جوآپؐ کی اُمت کو نہیں بتائے گئے۔ چنانچہ ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ :
يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا({ FR 1694 })
’’اے اُمت محمد! اللّٰہ کی قسم اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے۔‘‘
ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي لَأَ رَاكُمْ مِنْ وَرَائِي كَمَا أَرَاكُمْ({ FR 1695 })
’’میں یقینا تمھیں پیچھے سے بھی ایسا ہی دیکھتا ہوں ، جیسا تمھیں آگے سے دیکھتا ہوں ۔‘‘
غرض بکثر ت آیات اور روایات اس پردلالت کرتی ہیں کہ رسولوں کو جو علم غیب دیا گیا تھا،وہ اس سے بہت زیادہ تھا جو اُن کے واسطے سے بندوں تک پہنچا۔ اورعقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہو۔ کیوں کہ بندوں کو تو غیب کی صرف وہی باتیں معلوم ہونے کی ضرورت ہے جن کا تعلق عقائد ایمانیہ سے ہے۔ لیکن رسولوں کو ان کے سوا اور بہت سی ایسی معلومات حاصل ہونی چاہییں جو فرائضِ رسالت انجام دینے میں ان کے لیے مددگار ہوں ،جس طرح سلطنت کی پالیسی اور اس کے اسرار سے نائب السلطنت اور گورنروں کا ایک خاص حد تک واقف ہونا ضروری ہے اور عام رعایا تک ان رازوں کا پہنچ جانا بجاے مفید ہونے کے اُلٹا مضر ہوتا ہے۔اسی طرح ملکوتِ الٰہی کے بھی بہت سے اسرار ہیں جو خدا کے خاص نمائندے اور اس کے رسول جانتے ہیں اور عام رعیت ان سے بے خبر ہے۔ یہ علم غیب رسولوں کو تو اپنے فرائض انجام دینے میں مدد دیتا ہے، لیکن عام رعایا نہ اس علم کی ضرورت ہی رکھتی ہے اور نہ اس کا تحمل ہی کرسکتی ہے۔زیادہ صحت کے ساتھ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ مجملاً بس اس قدر ہے کہ نبی کا علم خدا کے علم سے کم اور بندوں کے علم سے زیادہ ہوتا ہے۔باقی رہی یہ بات کہ وہ کتنا ہوتا ہے اور کتنا نہیں ، تو اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ ({ FR 1987 }) (ترجمان القرآن، اگست۱۹۳۴ء)