سورة الاعراف ،آیت ۳۵ سے قادیانیوں کا غلط استدلال

قادیانی حضرات قرآن کی بعض آیات اور بعض احادیث سے ختم نبوت کے خلاف دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ سورۂ الاعراف کی آیت يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ (الاعراف: ۳۵ ) کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کے نزول اور محمدﷺ کی بعثت کے بعد اس آیت کا خطاب اُمت محمدیہ سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہاں بنی آدم سے مراد یہی امت ہے اور اسی امت کو خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اگر ’’کبھی تمھارے پاس تم میں سے رسول آئیں ۔‘‘ اس سے قادیانیوں کے بقو ل نہ صرف امتی انبیا بلکہ امتی رسولوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔
جواب

قادیانیوں کے جو دلائل آپ نے نقل کیے ہیں ،وہ بھی ان کے اکثر دلائل کی طرح سراسر گمراہ کن مغالطہ آمیزی پر مبنی ہیں ۔ آیت:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ (الاعراف:۳۵)
’’اے بنی آدمؑ، یاد رکھو، اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنا رہے ہوں ، تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا ور اپنے رویہ کی ا صلاح کرلے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔‘‘
کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے جو نتیجہ نکالاجاتا ہے، وہ اس کے نتیجے کے برعکس ہے جو سلسلۂ کلام میں اسے رکھ کر دیکھنے سے نکلتا ہے۔نیز اس مضمون کی جو دوسری آیات قرآن مجیدمیں ہیں ، وہ بھی قادیانیوں کی تفسیر سے مختلف ہیں ۔علاوہ بریں قادیانیوں سے پہلے گزشتہ تیرہ سو برس میں کسی نے بھی مذکورہ بالا آیت کا یہ مطلب نہیں لیا ہے کہ نبیﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت جاری رہنے کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔
سورۂ الاعراف میں یہ آیت دراصل قصۂ آدم وحوا کے سلسلے میں آئی ہے جو رکوع دوم کے آغاز سے رکوع چہارم کے وسط تک مسلسل بیان ہوا ہے۔پہلے رکوع دوم میں پورا قصہ بیان کیا گیا ہے، پھر رکوع سوم وچہارم میں ان نتائج پر تبصرہ کیا گیا ہے جو اس قصے سے نکلتے ہیں ۔اس سیاق وسباق کو ذہن میں رکھ کر آیت کو پڑھا جائے توصاف معلوم ہوتا ہے کہ یٰبَنِیْ اٰدَمَ کے الفاظ سے مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے ،اس کا تعلق آغاز آفرینش کے وقت سے ہے نہ کہ نزول قرآن کے وقت سے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز آفرینش ہی میں اولادِ آدم کو اس بات پر متنبہ کردیا گیا تھا کہ تمھاری نجات اس ہدایت کی پیروی پر موقوف ہے جو خدا کی طرف سے تم کو بھیجی جائے۔
اس مضمون کی آیات قرآن میں تین مقامات پر آئی ہیں اور تینوں مقامات پر قصۂ آدم وحوا کے سلسلے میں ہی اس کو وارد کیا گیا ہے۔ پہلی آیت البقرہ میں ہے(آیت نمبر ۳۸)، دوسری آیت سورۂ الاعراف میں ہے(آیت نمبر ۳۵)، اور تیسری آیت طٰہٰ میں ہے( آیت نمبر۱۲۳)۔ان تینوں آیتوں کا مضمون بھی باہم مشابہ ہے اور موقع ومحل بھی مشابہ۔
مفسرین قرآن بھی دوسری آیتوں کی طرح سورۂ الاعراف کی اس آیت کو بھی قصۂ آدم وحوا ہی سے متعلق قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں حضرت ابو سیار السُلَمی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے یہاں حضرت آدمؑ اور ان کی ذریت کویک جا اور ایک ہی وقت میں خطاب کیا ہے۔‘‘({ FR 2128 })امام رازیؒ اپنی ’’تفسیر کبیر‘‘ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ’ ’اگر خطاب نبی ﷺ کی طرف ہو، حالاں کہ وہ خاتم الانبیا ہیں ، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ یہاں اُمتوں کے بارے میں اپنی سنت بیان فرما رہا ہے۔‘‘({ FR 2129 })علامہ آلوسیؒاپنی تفسیر’’ روح المعانی‘‘میں فرماتے ہیں کہ’’یہاں ہر قوم کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہے اسے حکایتاً بیان کیا جارہا ہے۔یہاں بنی آدم سے نبیﷺ کی اُمت مراد لینا مستبعد اور ظاہر کے خلاف ہے، کیوں کہ یہاں جمع کا لفظ’’رسل‘‘ استعمال ہوا ہے۔‘‘({ FR 2130 })علامہ آلوسیؒ کے ارشاد کے آخری حصے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں خطاب اُمت محمدیہ سے ہو تو پھر اس اُمت کو یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ’’کبھی تم میں رسل آئیں ‘‘۔ کیوں کہ اس امت میں ایک سے زائد رسولوں کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(ترجمان القرآن،نومبر۱۹۵۴)