عوام کے جاہلانہ عقائد کے ساتھ سلوک

مسلمانوں کی اکثریت جہالت اور شر ک میں مبتلا ہے۔قبروں پر حاجات لے کر جانے اور نہ جانے کا سوال بہت اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔اس سلسلے میں اگر مصلحتاً سکوت کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کو قبول کرنے کے ساتھ لوگ شرک کرنے کی گنجائش کو بھی بحال رکھیں ۔ یوں بھی مصلحت اندیشی تابکَے، آخر بھانڈ اپھوٹتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوکے رہتا ہے کہ ہم قبروں پر جاکر حاجات طلب کرنے کے خلاف ہیں ۔ جہاں یہ بات کھلی بس فوراًہی آدمی کو وہابی کا سرٹیفکیٹ ملا اور کسی کو وہابی قراردینے کے بعد لوگ اس کی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے بدکنے لگتے ہیں کہ کہیں یہ بلّوریں عقائد کے اس محل پر پتھر نہ پھینک مارے جس کی تعمیر میں ان کے آبائ و اجداد نے پسینے بہاے ہیں اور جس کی حفاظت میں عمریں گزار دی گئی ہیں ۔میں بھی اسی خدشے کا ہدف بن رہا ہوں ۔
جواب

عوام کے عقائد پر خواہ مخواہ باوّلِ وہلہ ضرب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن اپنے عقائد پر پردہ ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں ۔’’وہابیت‘‘ کے الزام سے بچنے کا اہتمام نہ کیجیے۔لوگوں نے درحقیقت مسلمان کے لیے یہ دوسرا نام تجویز کیا ہے۔وہ گالی مسلمان کو دینا چاہتے ہیں ، لیکن مسلمان کہہ کر گالی دیں تواپنا اسلام خطرے میں پڑتا ہے، اس لیے ’’وہابی‘‘ کہہ کر گالی دیتے ہیں ۔ اس حقیقت کو جب آپ سمجھ جائیں گے تو پھر وہابی کے خطاب سے آپ کو کوئی رنج نہ ہوگا۔ جو عقائد اور جو اعمال مشرکانہ ہیں ،ان سے بہرحال پرہیز کیجیے اور توحید کو اس کے اصلی تقاضوں کے ساتھ بے تکلف بیان کیجیے۔ شرک اور مشرکانہ باتوں سے پرہیز اور توحید اور مقتضیاتِ توحید کی پابندی اگر وہابیت ہے تو خدا اپنے ہر بندے کو وہابی ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور غیر وہابی ہونے سے بچاے۔ (ترجمان القرآن، جولائی اگست ۱۹۴۵ء)