غلاف کعبہ کی نمائش اور اس کا جلوس

حال ہی میں بیت اﷲ کے غلاف کی تیاری اور نگرانی کا جو شرف پاکستان اور آپ کو ملا ہے وہ باعث فخر وسعادت ہے۔مگر اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی وارد ہوئے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلے تو آپ کی نیت پر حملے کیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ دراصل آپ اپنے اور اپنی جماعت کے داغ مٹانا اور پبلسٹی کرنا چاہتے تھے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے خواہاں تھے،اس لیے آپ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ شہرت بھی حاصل ہو اور الیکشن فنڈکے لیے لاکھوں روپے بھی فراہم ہوں ۔ اس کے بعد بعض اعتراضات اصولی اور دینی رنگ میں پیش کیے گئے ہیں ۔طرح طرح کے اعتراضات چوں کہ بار باراٹھائے جارہے ہیں اس لیے بہتر اور مناسب ہے کہ آپ ان کا جواب دیں ۔
جواب

اس معاملے میں مختلف دینی حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں ،وہ سب میری نگاہ سے گزرتے رہے ہیں ۔مگر ان میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اور جس انداز بیان سے کام لیا گیا ہے،اس کا حریف بننا کسی طرح بھی میرے بس میں نہ تھا،اس لیے میں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔اب ایک سائل نے شرافت ومعقولیت کے ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ اصل وجوہ اعتراض پر بحث کی جائے ،اس لیے ان صفحات میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔
جتنے اعتراضات اوپر نقل کیے گئے ہیں ،ان کی ساری عمارت دراصل ایک غلط مفروضے پر تعمیر کی گئی ہے۔معترضین نے اپنی جگہ یہ فرض کرلیا ہے کہ میں نے خود ابتدا کرکے غلاف کی نمائش کا انتظام کیا اور اس کا جلو س نکالنے کا پروگرام بنایا اور اسپیشل ٹرینوں کے ذریعے سے شہر در شہر اس کو پھرانے کی اسکیم بنائی۔ اسی بنیاد پر وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ بدعت آخر یہاں کیوں شروع کی گئی، اور پھر اس پر اعتراضات کے ردّے پر رَدّے چڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔حالاں کہ دراصل یہ مفروضہ ہی بجاے خود واقعات کے خلاف ہے۔ میرے پیش نظر سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ اس غلاف کے معاملے کوعوام میں مشتہر کیا جائے اور نہ میرے حاشیۂ خیال میں کبھی یہ بات آئی تھی کہ اسے جلوسوں اور نمائشوں کے بعد دھوم دھام سے روانہ کیا جائے۔ غلاف کی تیاری کے لیے ابتدائً سارا کام بالکل راز داری کے ساتھ ہوتا رہا۔میر ی خواہش یہ تھی کہ پاکستان کے کاری گروں سے سعودی عرب کے منتظمین دارالِکِسوہ({ FR 1121 }) کا براہِ راست معاملہ کرا دوں اورپھر عملاً اس سے بے تعلق ہو جائوں ۔
میں نہ یہ چاہتا تھا کہ میرا اس نگرانی سے کوئی تعلق ہو اور نہ میں نے اس کو پسند کیا کہ اس کی کوئی اطلاع اخبارات میں شائع ہو، یا عام لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ میں اس سلسلے میں کوئی کام کررہا ہوں ۔ لیکن مختلف کاری گروں سے سعودی عرب کے منتظمین کا تعارف کرانا اور ان کے کام کے نمونے حاصل کرنا بہرحال ناگزیر تھا۔ اس سے رفتہ رفتہ بات پھیلتی چلی گئی۔ پھر یکایک ایک روز یہ واقعہ پیش آگیا کہ چند کاری گروں کو مکے سے آئے ہوئے پرانے غلاف کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ دیا گیا تھا تاکہ وہ اس کے مطابق کام بنا کر لائیں ۔ عوام کو نہ معلوم کس طرح ان کے پاس اس ٹکڑے کی موجودگی کا علم ہوگیا اور لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ اس کی زیارت کے لیے جمع ہوگئے۔اس کے بعد اس کا جلوس بازار میں نکالا گیا اور آناًفاناً یہ بات شہر میں مشہور ہوگئی کہ یہاں غلاف کعبہ کی تیاری کا کام ہورہا ہے۔اس واقعے سے ایک خبر رساں ایجنسی تک یہ اطلاع پہنچ گئی اور اس نے سارے ملک میں اسے پھیلا دیا۔ پھرا خبارات کے نمائندوں نے بطور خود اس میں دل چسپی لینی شروع کردی۔ غلاف کی تیاری کے مختلف مرحلوں کی اطلاعات اخباری نمائندے خود ہی ٹوہ لگا لگا کر حاصل کرتے رہے اور انھیں شائع کرتے رہے۔یہاں تک کہ جب غلاف کا کپڑا تیار کرنے کا کام یعقوب انصاری صاحب کے سپرد کیا گیا تو اخبارات نے ان کا فوٹو،ان کے کاری گروں کا فوٹو، ان کی فیکٹری کا فوٹو،تمام تفصیلات کے ساتھ شائع کردیا،جس سے عوام کو معلوم ہوگیا کہ غلاف کہاں بن رہاہے اور کون بنا رہا ہے۔ اب غلاف کی تیاری شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ فیکٹری پر جمع ہونے لگے۔
یہ سب کچھ میرے علم واطلاع کے بغیر ہوتا رہا۔میری کسی خواہش اور کوشش کا اس میں قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔
عوام میں جب یہ اطلاعات پھیلیں تو ان کے اندر غلاف کو دیکھنے کا شوق ایک طوفان کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے پہلے اس امر کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا کہ یہاں لوگ اس چیز سے اتنی اور اتنے بڑے پیمانے پر دل چسپی لیں گے۔اب جو خلاف توقع یہ صورت سامنے آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس طوفان کو روک دینا میرے یا کسی شخص کے بس میں نہیں ہے اور اسے روکنے کی کوشش میں قوت صرف کرنا غیر ضروری بھی ہے،کیوں کہ یہ ایک فطری دل چسپی ہے اور بجاے خود ناجائز نہیں ہے۔ یہ ملک عرب سے بہت دور ہے۔ یہاں کے بہت کم لوگوں کو وہاں جانا اور بیت اﷲ کو دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔یہاں کے عوا م کو پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں سے ایک ہدیہ خدا کے گھر کے لیے تیار ہوکر جارہا ہے۔اس لیے یکایک ان کے اندر آتش شوق بھڑک اٹھی ہے۔ یہ شوق کسی بت کے لیے نہیں ہے۔ کسی معبود غیر اﷲ کے آستانے کے لیے نہیں ہے۔ خود اﷲ ربّ العالمین کے اپنے گھر کے لیے ہے جسے اﷲ نے آپ ہی مَثَابَۃَ لِّلنَّاسِ بنایا ہے اور تمام آفاق کے لوگوں کو اس کا گرویدہ کیاہے: فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِيْٓ اِلَيْہِمْ ({ FR 1144 }) (ابراھیم:۳۷) اس شوق کو کسی طرح بھی مشرکانہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ بنیادی طور پر یہ ایک خدا پرستانہ شوق ہے اس لیے اسے شوق نامحمود قراردے کر روک دینے اور دبادینے کی فکر غیر ضروری ہے۔ مگر چوں کہ ہمارے عوام دین کے علم اور دینی تربیت سے محروم ہیں اور حدود کو نہیں پہچانتے،اس لیے ایک جائز شوق بھی اگر ان کے اندر سیلاب کی طرح اٹھے اور آپ سے آپ اپنا راستہ نکالنا شروع کردے تو بہت جلدی وہ غلط راستے پر پڑسکتاہے۔ ان سارے پہلوئوں پر غور کرکے میں نے یہ راے قائم کی کہ عوام کی اس جائز اور فطری دل چسپی کو، جو میرے یا کسی کے بھڑکانے سے نہیں بھڑکی ہے بلکہ آپ سے آپ بھڑک اٹھی ہے، غلط رُخ پر جانے سے روکنے اور صحیح رُخ پر ڈال دینے کی کوشش ناگزیر ہے۔اگر میں ایسا نہ کروں گا تو یہ ایسا راستہ اختیا ر کرلے گی جو شرعی اعتبار سے بہت قابل اعتراض اور دین واخلاق کے لیے بہت مضرت رساں ہوگا۔
یہی کچھ سوچ کر میں نے غلاف کی تیاری شروع ہوتے ہی معززین شہر کو جمع کیا اور سب کی رضا مندی سے مختلف نمائندہ اصحاب کی ایک مجلس بنائی تاکہ شہر کے لوگوں کے جذبۂ شوق کی تسکین جائز حدود کے اندر ہوجائے اور بے قاعدہ زیارتوں اور جلوسوں کی نوبت نہ آنے پائے۔اس مجلس میں حسب ذیل اصحاب شامل کیے گئے:
۱۔ مولانا عبدالرحمن صاحب(مولانا مفتی محمد حسن صاحب مرحوم ومغفور کے صاحب زادے اور جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم،علماے دیو بند کے گروہ سے)
۲۔ مفتی محمد حسین نعیمی صاحب(مہتمم جامعہ نعیمیہ،بریلوی گروہ کے علما میں سے)
۳۔ مولانا حافظ کفایت حسین صاحب( شیعہ علما میں سے)
۴۔ حاجی محمد اسحاق حنیف صاحب( ناظم نشرو اشاعت جمعیت اہل حدیث۔ ان کا نام اس مجلس کی رکنیت کے لیے جناب مدیر الاعتصام نے خود تجویز کیا تھا)
۵۔ چودھری محمد حسین صاحب( وائس چیئرمین لاہور کارپوریشن)
۶۔ چودھری محمد امین صاحب(کونسلر لاہو ر کارپوریشن)
۷۔ محمد عمر خاں صاحب بسمل(ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن لاہور)
۸۔ نصر اﷲشیخ صاحب(صدر پنجاب یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین)
۹۔ حاجی محمد لطیف صاحب(صدر شاہ عالم مارکیٹ)
۱۰۔ شیخ تاج دین صاحب( صدر اعظم کلاتھ مارکیٹ ایسوسی ایشن)
۱۱۔حاجی معراج دین صاحب(چیئرمین یونین کونسل شو مارکیٹ)
۱۲۔ ملک مبارک علی صاحب(چیئرمین یونین کمیٹی چوک وزیر خاں )
۱۳۔ شمشیر علی صاحب( لیڈیز اون چوائس ،انارکلی)
۱۴۔ شیخ فرحت علی صاحب( فرحت علی جیولرز،مال روڈ)
۱۵۔ سیٹھ ولی بھائی صاحب(بمبئی کلاتھ ہائوس،انار کلی)
۱۶۔ رانا اللہ داد خان صاحب(رانا موٹرز،مال روڈ)
۱۷۔عزیز الرحمن صاحب(سائنس ہائوس،میکلیگن روڈ)
۱۸۔جناب کوثر نیازی صاحب(ایڈیٹر شہاب)
اس پوری مجلس میں جماعت اسلامی کے صرف دو رکن شامل تھے۔باقی سب مختلف گروہوں کے نمائندہ اور ذمہ دار اصحاب تھے۔میں نے خود اپنے آپ کو اس میں سرے سے شامل ہی نہ کیا تھا۔البتہ اس کے دو اجلاسوں میں ارکان مجلس کی خواہش پر شریک ضرور ہوا تھا۔ان مواقع پر ڈپٹی کمشنر لاہور،اسسٹنٹ کمشنر لاہور،اور ڈپٹی مجسٹریٹ لاہور بھی شریک اجلاس تھے۔سب کے مشورے سے یہ پروگرام بنایا گیا کہ غلاف روانہ کرنے سے پہلے چار دن عورتوں کو اور تین دن مردوں کو اس کے دیکھنے کا موقع دیا جائے۔اس نمائش میں عورتوں اور مردوں کو ہرگز خلط ملط نہ ہونے دیا جائے۔ نمائش گاہ میں ایسے کارکن(عورتوں کے لیے عورتیں اور مردوں کے لیے مرد) مقرر کیے جائیں جو لوگوں کو جائز شرعی حدود کی تلقین کرتے رہیں اور ناجائز افعال سے روکیں ۔ نذرانے دینے سے بھی لوگوں کو منع کیا جائے اور انھیں ہدایت کی جائے کہ غلاف کو دیکھتے وقت بس اﷲ کا ذکر کریں ، کلمہ طیبہ اور درود شریف پڑھیں ، اور اﷲ سے دُعا کریں کہ اپنے اس گھر کی زیارت کا بھی شرف عطا فرمائے جس کا غلاف دیکھنے کی توفیق اس نے بخشی ہے۔ پھر غلاف روانہ کرتے وقت اسے جلوس کی شکل میں لے جایا جائے، (کیوں کہ جلوس نکالا نہ گیا تو وہ خود نکل کر رہے گا اور بُری طرح نکلے گا) مگر اس امر کا پورا اہتما م کیا جائے کہ جلوس کے پورے راستے سے فحش تصویریں ہٹا دی جائیں ، گانوں کی ریکارڈنگ بند کردی جائے، تکبیر و تہلیل اور اﷲ جل شانہ کی حمد کا غلغلہ اس زور سے بلند کیا جائے کہ سارا شہر اس سے گونج اٹھے اور اس جلوس میں عورتوں کو شریک ہونے سے منع کیا جائے۔
یہ تھا وہ پروگرام جو شہرلاہور کے لیے بنایا گیا تھا۔اس کے بعد ہمیں ایک اور صورتِ حال سے سابقہ پیش آیا۔ وہ یہ تھی کہ غلاف کو دیکھنے کی تڑپ صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھی بلکہ جگہ جگہ سے لوگ آکر اسے فیکٹری ہی میں دیکھ رہے تھے اور فیکٹری والوں کے لیے کام کرنا مشکل ہورہا تھا۔ پھر لوگوں نے کسی نہ کسی طرح فیکٹری والوں سے غلاف کے تھان حاصل کرنے شروع کردیے اور مختلف شہروں میں لے جا کر ان کے جلوس نکالے اور اپنے اپنے طریقوں پر ان کی زیارت کرائی۔ مجھے اندیشہ ہواکہ جس خرابی کو میں یہاں روکنا چاہتا ہوں ، وہ پورے ملک میں پھیلے گی۔ یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ اس طرح کہیں کچھ تھان ضائع نہ ہوجائیں ۔ اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ باہر کے لوگوں کو بھی غلاف دکھانے کا باقاعدہ انتظام کردیا جائے۔ چنانچہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے تعاون سے دو اسپیشل ٹرینوں کا انتظام کیا گیا۔ ان کے ساتھ بارہ بارہ ریلوے اسکائوٹس، تین تین سول ڈیفنس کے رضا کار اور تین تین جماعت اسلامی کے کارکن بھیجے گئے۔ ان میں لائوڈسپیکر نصب کیے گئے اور کارکنوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ جہاں بھی وہ لوگوں کو غلاف دکھانے کے لیے ٹھیریں ، وہاں پہنچتے ہی اﷲ کے ذکر کا غلغلہ اس زور سے بلند کریں کہ کوئی دوسرا نعرہ اٹھنے ہی نہ پائے۔ زائرین کو ہرطرح کے مشرکانہ افعال سے روکیں ، عورتوں اور مردوں کو خلط ملط نہ ہونے دیں ، نذرانے ڈالنے سے منع کریں ،تنظیم کے ساتھ غلاف دکھائیں تاکہ حادثات رونما نہ ہوں ، اور لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ صرف ایک کپڑا ہے جو اﷲ کے گھر کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسے بس دیکھ لو اور اﷲ سے دُعا کرو کہ وہ اپنے گھر کی زیارت بھی نصیب کرے۔ (ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۳ء)