مقتضیاتِ دین کی بروقت صراحت

اجتماع({ FR 962 }) میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت وتبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گزشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم واستقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کردیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت وجرأت کے ساتھ ادا ہوتی رہیں ۔ اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر({ FR 963 }) کے بعض فقرے میرے بعض ہم درد رفقا کے لیے باعثِ تکدّر ثابت ہوئے اور دوسر ے مقامات کے مخلص ارکان وہم دردوں میں بھی بددلی پھیل گئی ۔عرض یہ ہے کہ منکرینِ خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم،تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے ؟کیا ان کے اعتراضات وشبہات حکمت وموعظۂ حسنہ اور حلم وبردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیتِ جذبات کا پتا دے رہے تھے۔ تقریر کی صحت میں کلام نہیں ،صرف انداز تعبیر اور طرزِ بیان سے اختلاف ہے۔قرآن کا اُصول تبلیغ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ({ FR 1132 }) (آل عمران:۱۵۹ ) سے اخذ کیا جاسکتا ہے، اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ساری مشکلات حل ہوسکتی ہیں ۔مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ آپ کی عام عادت تبلیغ وتفہیم میں حکیمانہ ہے۔ اسی بِنا پر اس دفعہ خلافِ عادت لب ولہجہ کو سخت دیکھ کر تعجب ہوا۔
جواب

نرمی کی حکمت عملی
مجھے یہ معلوم کرکے تعجب ہوا کہ آپ اہل دین کے ساتھ بھی چاہتے ہیں کہ وہی سلوک کیاجائے جو منکرین کے ساتھ ہونا چاہیے۔نیز یہ کہ آپ نے فقط نرمی ہی کو تقاضاے حکمت سمجھا ہے، حالاں کہ قرآن وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کے مان لینے والوں سے جب خلافِ حق باتوں کا صدور ہو تو ان کے ساتھ ان لوگوں کی بہ نسبت مختلف برتائو کیا جاتا ہے جو سرے سے حق کو نہ ماننے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اﷲ اور رسولﷺ نے جہاں بعض مواقع پر انتہائی نرمی برتی ہوتی ہے اور وہ عین مقتضاے حکمت ہے،بعض دوسرے مواقع پر سخت لب ولہجہ بھی اختیار کیا ہے اور تیز وتند الفاظ سے بھی کام لیا ہے اور وہ بھی مقتضاے حکمت ہی رہا ہے۔میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے آخری تقریر میں کہی ہیں ،کیا ان میں کوئی لفظ خلافِ حق تھا؟ نیز یہ کہ اس تقریر میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، کیا فی الواقع اس مرحلے پر ان کا کہنا ضروری نہیں تھا؟ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو آپ اسے ضرور تحریر فرمائیں ۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باتیں جو کہی گئی ہیں ،وہ حق تھیں اور لوگوں کو اصل مقتضیاتِ دین کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس وقت انھیں صاف صاف بیان کرنے کی ضرورت بھی تھی تو پھر لب ولہجہ کی شکایت فضول ہے۔میں آپ کو اس با ت کا یقین دلاتا ہوں کہ میں جذبات سے مغلوب ہونے والا آدمی نہیں ہوں ۔نرمی اور سختی جو کچھ بھی اختیارکرتا ہوں ،جذبات کی بِنا پر نہیں ،بلکہ ٹھنڈے دل سے یہ راے قائم کرنے کے لیے اختیار کرتا ہوں کہ اس موقع پر واقعی ایسا کرنا چاہیے۔
مقتضیاتِ دین کی بروقت صراحت
آپ کے سامنے صرف اپنا قریبی ماحول ہے،مگر مجھ پر جس ذمہ داری کا بار ہے اس کی وجہ سے میں پوری جماعت اور تحریک کے حالات پر نگاہ رکھتا ہوں ۔مجھے یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر اس موقع پر میں مقتضیات دین کو صاف اور واضح طریقے پر بیان نہ کردوں اور ان لوگوں کی غلطی کو بالکل کھول کر نہ رکھ دوں جو فروع کو اب تک اصل دین بناے بیٹھے ہیں اور دین کے اصلی تقاضوں سے غفلت برتتے رہے ہیں تو اس کا نتیجہ ہماری تحریک کے حق میں نہایت مہلک ہو گا۔ کیوں کہ اس قسم کا ایک اچھا خاصا گروہ ہماری تحریک سے محض سطحی طور پر متاثرہوکر ہماری طرف کھنچنے لگا ہے لیکن اپنے سابق تعصبات اور اپنی سابق غلطیوں میں سے کسی چیزمیں بھی ذرّہ برابر ترمیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اُلٹا ہم سے طالب ہے کہ ہم بھی ان غلطیوں میں مبتلا ہوکر وہی خرابیاں برپاکریں جو یہ لوگ اصلاح کے نام سے کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا اگر اس مرحلے پر میں صاف صاف ان کو متنبہ نہ کردیتا تو مجھے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ جماعت کے اندر آکر یا جماعت کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایسی پیچیدگیاں پیدا کردیتے جن سے کام بننے کے بجاے اُلٹا خراب ہوتا۔
دراصل جو باتیں میری اس تقریر کو سننے کے بعد اس گروہ کے لوگوں نے کی ہیں ،ان سے تو مجھے یہ یقین حاصل ہوگیا ہے کہ یہ لوگ فی الواقع دین کے کسی کام کے نہیں اور یہ کہ ان کا ہمارے قریب آنا ان کے دُور رہنے،بلکہ مخالفت کرنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔آپ خود ہی اندازہ کیجیے کہ جو لوگ قرآن وسنت کے لحاظ سے میری تقریر کے اندر کوئی لفظ بھی قابل گرفت نہیں بتا سکتے،بلکہ اس کے برعکس جو یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ جس چیز کو میں نے دین کا اصل مدعا بتایا ہے،واقعی قرآن وسنت کی رُو سے دین کا اصل مدعا وہی ہے،اور جن چیزوں کو میں مقدم ومؤخر کررہاہوں ،وہ واقعی مقد م ومؤخر ہیں ،مگر اس کے باوجود جنھیں میری اس تقریر پر اعتراض کرنے اور بددلی اور رنجش کا اظہار کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا، وہ آخرکس قدر عزت کے مستحق ہیں کہ ان کے جذبات وخیالات کا لحاظ کیا جائے۔ ایسے لوگ دراصل بندۂ حق نہیں ،بلکہ بندۂ نفس ہیں ۔ ان کے اندر خدا کا اتنا خوف نہیں ہے کہ اپنی غلطیوں پر متنبہ ہونے کے بعد اپنی اصلاح کریں اور حق کے واضح طور پر سامنے آجانے کے بعد اسے قبول کریں ۔اس کے بجاے وہ شکایت یہ کرتے ہیں کہ حق بات انھیں صاف صاف کیوں کہہ دی گئی اور کہنے والا انھی تعصبات میں کیوں مبتلا نہیں ہے جن میں وہ خود مبتلا ہیں ۔ اس قسم کے لوگ اگر منکرین میں سے ہوتے تو ہم ان کی رعایت کچھ نہ کچھ کرسکتے تھے، مگر یہ لوگ اپنی اس نفس پرستی کے باوجود حق پرستوں کی صفِ اوّل میں کھڑے ہیں اور دین داری کا ڈھونگ رچاتے ہیں ، اس لیے نہ یہ کسی رعایت کے مستحق ہیں اور نہ ایسے لوگوں کے دُور ہوجانے پر کوئی ایسا شخص افسوس کرسکتا ہے جو حق کے لیے کام کرنا چاہتا ہو۔یہ لوگ جو کچھ اب تک مذہب کے نام پر کرتے رہے ہیں ،اس سے دین کی کوئی بات بن نہیں آئی ہے بلکہ کچھ بگڑتا ہی رہا ہے۔اب میں نے چاہا کہ ان کو صاف صاف بتائوں کہ اگر واقعی دین کی بات بنانا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے اور تمھارے فہمِ دین میں کیاقصور ہے جس کی وجہ سے تم اب تک کچھ نہیں کرسکے۔اگر یہ لوگ واقعی دین کے ساتھ کوئی قلبی تعلق رکھنے والے ہوتے تو میر ی باتیں سن کر ان کی آنکھیں کھل جا تیں اور ان کے اندر توبہ وانابت کا جذبہ پیدا ہوتا، لیکن اس کے بجاے یہ لوگ اُلٹا مجھ سے بگڑ گئے اور اب بھی ان کے نزدیک مرجح یہی ہے کہ انھی تعصبات اور جزئیات پرستیوں میں مبتلا رہیں جن میں اب تک مبتلا رہے ہیں ۔ ان کی اس کیفیت کو دیکھ لینے کے بعد میں بہت خوش ہوں اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ فتنہ پسندگروہ قریب آنے کے بجاے دُور جارہا ہے۔
اگر خدا نخواستہ میں اس اجتماع کے موقع پر ان باتوں کو صاف صاف بیا ن کرنے میں کوئی کسر اُٹھا رکھتا توالبتہ یہ میری ایسی کوتاہی ہوتی جس پر میں بعد میں افسوس کرتا۔مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود ان لوگوں کویہ توفیق ہی نہیں دینا چاہتا کہ یہ لوگ اس کے دین کی کوئی خدمت کریں ۔ جن فتنوں کی یہ خدمت کرتے رہے ہیں ،اﷲ نے بھی غالباًیہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کو انھی فتنوں کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ (ترجمان القرآن،مارچ ،جون۱۹۴۵ء )