گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست

میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں ۔ایک ایسا مکان فروخت ہورہاہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دُور کے رشتہ داروں کو وہ مکان میراث میں ملا ہے۔میں نے اس مکان کے خریدنے کا ارادہ کیا تو میرے گھر کے بعض افراد مزاحم ہوئے اور کہنے لگے کہ گھر منحوس ہے،اس میں رہنے والوں کی نسل نہیں بڑھتی حتیٰ کہ اصل مالک پر خاندان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ گھر کے لوگوں نے ان احادیث کا بھی حوالہ دیا جن میں بعض گھروں ،گھوڑوں اور عورتوں کے منحوس ہونے کا ذکر ہے۔ میں نے کتب احادیث میں اس سے متعلق روایتیں دیکھیں اور متعارف شروح وحواشی میں اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی پڑھا، لیکن جزم ویقین کے ساتھ کوئی متعین توجیہ سمجھ میں نہ آسکی۔اس بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟
جواب

جن روایات کا آپ ذکرکررہے ہیں ، وہ کتب حدیث میں وارد تو ہوئی ہیں مگر حضرت عائشہؓ کی ایک روایت سے ان کی حقیقت کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اس کو یوں نقل کیا ہے:
عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ أَنَّ رَجُلَيْنِ دَخَلَا عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَا إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ إِنَّمَا الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالدَّارِ قَالَ [...] فَقَالَتْ وَالَّذِي أَنْزَلَ الْقُرْآنَ عَلَى أَبِي الْقَاسِمِ مَا هَكَذَا كَانَ يَقُولُ وَلَكِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالدَّابَّةِ ثُمَّ قَرَأَتْ عَائِشَةُ﴿مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ﴾ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ({ FR 1868 })
’’ابو حسان اعرج سے روایت ہے کہ دو آدمی حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’بدشگونی تو صرف عورت اور گھوڑے اور گھر میں ہے۔‘‘[...]اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے قرآن ابو القاسم(یعنی آں حضرت ؐ)پر نازل کیا ہے،آپؐ یوں نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ آپؐ یہ کہا کرتے تھے کہ اہل جاہلیت عورت،گھوڑے اور گھر میں نحوست و بدشگونی کے قائل تھے۔پھر حضرت عائشہ نے یہ آیت پڑھی:کوئی مصیبت زمین میں اور تمھارے نفوس میں نہیں آتی مگر اُس کے رونما ہونے سے پہلے وہ ایک نوشتے میں لکھی ہوتی ہے۔‘‘
ام المؤمنینؓ کی اس تشریح سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے جو روایت بیان کی ہے وہ غالباًصحیح الفاظ میں نقل نہیں ہوئی ہے۔تاہم اگر اس کو درست مان بھی لیا جائے تو اِ س کی ایک معقول توجیہ بھی ہوسکتی ہے۔
نحوست کا ایک مفہوم تو وہم پرستانہ ہے جسے اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ لیکن نحوست کا ایک دوسرا علمی مفہوم بھی ہے۔اس سے مراد کسی چیز کا ناموافق اور ناسازگار ہونا ہے۔یہ مفہوم معقول بھی ہے اور شریعت میں معتبر بھی۔چنانچہ حدیث میں مکان کے منحوس ہونے کا جہاں ذکر ہے وہاں مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان میں کوئی ایسی وہمی چیز موجود ہے جو رہنے والوں کی قسمت بگاڑ دیتی ہے بلکہ اس کا مدعا یہ ہے کہ تجربے اور مشاہدے نے اس مکان کو سکونت کے لیے ناموافق ثابت کردیا ہے۔بسا اوقات کسی مرض کے متعد دمریض ایک مکان میں یکے بعد دیگرے رہتے چلے آتے ہیں یہاں تک کہ مرض کے زہریلے اثرات وہاں مستقل طور پر جاگزیں ہوجاتے ہیں ۔ اب اگر تجربے سے معلوم ہوجائے کہ وہاں جو رہاوہ اس مرض خاص میں مبتلا ہوگیا، تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مکان اب سکونت کے لیے ناموافق ہوگیا ہے۔خصوصیت کے ساتھ طاعون اور دق کے معاملے میں یہ بات بارہا تجربے سے ثابت ہوچکی ہے۔ احادیث میں بھی یہ حکم موجود ہے کہ جہاں طاعون پھیلا ہو،وہاں سے بھاگو بھی نہیں اور قصداًوہاں جائو بھی نہیں ۔ایسا ہی معاملہ عورت اور گھوڑے کا بھی ہے۔ اگر متعدد آدمیوں کو ایک گھوڑے کی سواری ناموافق آئی ہو،یا متعدد آدمی ایک عورت سے یکے بعددیگرے نکاح کرکے خاص مرض کے شکار ہوئے ہوں تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس عورت یا گھوڑے میں کوئی نامعلوم خرابی ہے۔
اب یہ دیکھنا آپ کا کام ہے کہ جس مکان کو آپ خریدنا چاہتے ہیں ،اُس کی نحوست وہمی نوعیت کی ہے یا تجربی نوعیت کی۔
(ترجمان القرآن ، جنوری۱۹۵۳ء)