ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

ایک خلش ہے، جس نے مجھے پریشان اور بے چین کر رکھا ہے۔ وہ ہے حضور ﷺ کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ کم سنی میں شادی کرنا۔ اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں کوئی وزن اور جان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ اور نو سال کی عمر میں عرب کی لڑکی شادی کے قابل ہوجاتی ہے اور چالیس سال کے بعد ہی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ حضوؐر نے حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اور بچے بھی حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر کے بعد ہی ہوئے ہیں ۔ خود حضور ﷺ نے اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہؓ کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ عالمہ و فاضلہ تھیں ، یہ سب صحیح، لیکن ایک ایسی لڑکی، جو کہ انتہائی کم سن ہو، جو شادی کے بعد بھی گڑیوں کا کھیل کھیلتی ہو اس سے کیا شادی کرنا ضروری تھا؟ اللہ تو کسی اور خاتون کو یہ صلاحیتیں عطا کرسکتا تھا۔ سب سے بڑا اعتراض، جو حضوؐر کے خلاف کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اپنی کبر سنی کی حالت میں حضوؐر نے کیسے ایک نوسالہ لڑکی سے شادی کی اور یہ بھی کہیں درج نہیں کہ یہ اجازت صرف حضوؐر کے لیے ہے۔ اس لیے آج اگر کوئی بوالہوس بوڑھا کم سن بچی سے شادی کرتا ہے تو اسے کون روک سکے گا؟ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں یہ رواج تھا اس لیے کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا؟ مگر جو دین آخری دین تھا اور قیامت تک کے لیے تھا اس میں تو اس پر روک ہونی چاہیے تھی؟ بہ راہ کرم اس کا جواب دیں ۔
جواب

رسول اللہ ﷺ کی نجی زندگی کے بارے میں جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے جب نکاح کیا اس وقت ان کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ شاید اس اعتراض سے بچنے کے لیے ہی بعض حضرات نے یہ رائے پیش کی ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت سولہ سال اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی۔ لیکن کتب ِ حدیث و سیر و تاریخ میں بہ وقت ِ نکاح حضرت عائشہؓ کی کم سنی کی روایات اتنی کثرت سے ہیں کہ چھ اور نو کو سولہ اور انیس بنانا ممکن نہیں ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے زوجین کا ہم عمر ہونا پسندیدہ ہے۔ لیکن اسلام نے زیادہ اہمیت عمر کو نہیں ، بلکہ خوش گوار ازدواجی تعلقات کو دی ہے۔ قرآن و حدیث میں بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، ان کے تمام حقوق ادا کرنے، ان کی دل جوئی کرنے اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات ِ طیبہ اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ عمروں میں تفاوت کے باوجود حضرت عائشہؓ کے ساتھ آں حضرت ﷺ کے ازدواجی تعلقات انتہائی خوش گوار اور مثالی تھے۔ نو سالہ رفاقت میں دونوں کے درمیان نا موافقت یا بے اطمینانی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان کے درمیان باہم الفت و محبت کے بہت سے واقعات کتب حدیث و سیرت میں ملتے ہیں ۔
عمروں میں تفاوت کے ساتھ شادیوں کا رواج صرف عہد ِ قدیم ہی میں نہیں تھا۔ ایسی شادیاں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اور آج کل بھی ایسی خبریں اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ مگر ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ ابھی حال میں رائٹر نامی خبر رساں ایجنسی نے چین کے بیاسی سالہ نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعیات ڈاکٹر چینگ ننگ ینگ کی اپنی اٹھائیس سالہ طالبہ وونگ فین سے شادی کی خبر دی ہے۔ڈاکٹر ینگ نے اپنی ہونے والی دلہن کو اپنے لیے اللہ کا آخری تحفہ قرار دیا ہے اور اٹھائیس سالہ دوشیزہ نے بھی اپنی اس شادی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
(ماہ نامہ اللہ کی پکار، نئی دہلی، فروری ۲۰۰۵ء ص:۱۰۰)
نکاحِ عائشہؓ پر اعتراض کے پیچھے ایک ذہنیت یہ کام کرتی ہے کہ اتنی کم سن لڑکی اس قابل نہیں ہوتی کہ اس سے مخصوص ازدواجی تعلق قائم کیا جاسکے۔ اس ذہنیت کے حاملین یہ بھول جاتے ہیں کہ بلوغ کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح عورت کی پیداواری صلاحیت کی انتہائی مدت متعین کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ جسمانی نشو و نما، غذائیت، آب و ہوا، خاندان اور دیگر عوامل اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یورپی ممالک میں آٹھ، نو سال کی عمر میں لڑکیوں کے یہاں ولادت کی متعدد خبریں منظر عام پر آئی ہیں اور ابھی حال میں ایک باسٹھ سالہ خاتون کے ماں بننے کی خبر اخباروں میں چھپی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی کم سنی کی شادی پر اعتراضات کا جائزہ کسی قدر تفصیل سے راقم سطور نے اپنی کتاب ’حقائق اسلام (بعض اعتراضات کا جائزہ)‘ میں لیا ہے، جسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ کم سنی کی شادی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے مولانا سلطان احمد اصلاحی کے رسالہ ’کم سنی کی شادی اور اسلام‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ یہ رسالہ بھی مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے شائع ہوا ہے۔