جواب
توحید اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔ اس کی ضد شرک ہے ۔ عقیدۂ توحید کا خالص اور بے آ میز ہونا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو ہر گز معاف نہیں کرےگا۔ اس کے علاوہ بندہ جتنے بھی گنا ہ کرلے ، اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمی سے انہیں معاف کرسکتا ہے۔(النساء۴۸:)
عقیدۂ توحید میں یہ بات شامل ہے کہ نفع ونقصان پہنچانے کا اختیار حقیقی طور پر اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ اسی طرح کسی شخص کوہدایت دینے والا صرف اللہ ہے ۔ یہ اختیارات اس نے کسی بھی انسان ، حتیٰ کہ کسی پیغمبرکوبھی نہیں دیے ہیں ۔ اسی طرح آئندہ کیا ہوگا؟ اس کا بھی قطعی علم صرف اللہ کو ہے ۔ کوئی انسان اس سے باخبر نہیں ہے ۔ اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں کثرت سے ہیں ۔(مثلاً البقرۃ: ۲۷۲، الاعراف: ۱۸۸، الکہف۲۳:۔۲۴، القصص۵۶:، لقمان۳۴:)
قرآن کریم میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ دنیا میں جولوگ شرک میں مبتلا ہیں ، انہیں اورجن ہستیوں کو انہوں نے خدائی میں شریک کررکھا ہے ، انہیں بھی اللہ تعالیٰ میدان حشر میں روبروٗ کرے گا اور ان ہستیوں سے پوچھے گا کہ کیاتم نے ان لوگوں سے شرک کرنے کوکہا تھا ؟ اس وقت وہ ہستیاں برأ ت ظاہر کریں گی ۔ ان میں انبیاء بھی ہوں گے اوراولیاء وصلحاء بھی ۔ یہ روٗبروٗ سوال وجواب محض اتمام حجت کے لیے ہوگا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کو خوب خبرہے کہ ان ہستیوں نے اپنے معتقدین کوشرک کا حکم نہیں دیا تھا۔ اس میں ان انبیا ء وصلحاء کی توہین کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔
بہ حیثیت مجموعی توحید کے موضوع پر خطبۂ جمعہ میں کہی گئی مذکورہ بالاباتیں درست ہیں ۔ انبیا ء وصلحاء کے تعلق سے امت کی بڑی تعداد غلو میں مبتلا ہے ۔ وہ بسا اوقات انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر الوہیت کے مقام پر پہنچادیتے ہیں ۔ اس لیے ا ن باتوں کوغلط قرار دینے کے بجائے اس کی روشنی میں اپنے مزعومہ تصورات کی اصلاح کرنی چاہیے۔