دفع ِ وبا کے لیے اجتماعی نماز اور دعا

کیا آفات کے موقع پر اجتماعی دعا اور نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اسی طرح کیا وبائی امراض کو دفع کرنے کے لیے بھی اجتماعی نماز اور دعا کا اہتمام کیا جاسکتا ہے؟ براہ کرم اس کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیے ۔
جواب

یر طبعی حوادث اور قدرتی آفات کے موقع پر اجتماعی نماز اور اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے یہ ثابت ہے۔ _ چنانچہ عہدِ نبوی میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو آپؐ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور طویل نماز پڑھائی ۔ اسے’ صلوٰۃالکسوف‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ جب کبھی تیز آندھی چلتی تو آپؐ فوراً نماز پڑھنے لگتے تھے ۔
لیکن وبائی امراض کا معاملہ دوسرا ہے۔ اگر کوئی ایسا مرض پھیلا ہوا ہو جس کے، لوگوں کے جمع ہونے سے، مزید پھیلنے کا قوی امکان ہو تو اس صورت میں انفرادی دعا، نماز، گریہ و زاری، الحاح و تضرّع کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے اجتماعی صورتیں اختیار کرنے سے بچنا چاہیے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے لکھا ہے کہ ربیع الآخر۸۳۳ھ میں قاہرہ میں وبا پھوٹ پڑی۔ اعلان کیا گیا کہ لوگ تین دن روزے رکھیں ، پھر اجتماعی دعا کے لیے جمع ہوں ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، لیکن اس کے بعد اموات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ پہلے مرنے والوں کی تعداد چالیس(۴۰) سے کم تھی، لیکن اجتماعی نماز و دعا کے بعد بیماری اس شدت سے پھیلی کہ ہر روز ایک ہزار سے زائد لوگ مرنے لگے ۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے صحت مند لوگ بھی وبا سے متاثر ہوگئے تھے۔