جواب
ذکورہ دونوں واقعات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ آپ بچپن سے اعلان نبوت تک بھی اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں تھے۔ چنانچہ آپؐ کی ذات گرامی سے نہ کسی شرکیہ عمل کا صدور ہوا اور نہ آپ کسی غیر شائستہ کام میں مبتلا ہوئے۔ پہلے واقعہ میں صراحت ہے کہ آپؐ نے لہو ولعب کی محفل میں جانے کا ارادہ تو کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اورآپ ؐ راستے ہی میں ایک جگہ سو گئے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ دوسرے واقعہ سے توآپ کی شدّتِ حیا کا اظہار ہوتا ہے۔ ستر کھلتے ہی آپ شرم کے مارے بے ہوش گئے۔ ہوش آیا تو تہہ بند باندھنے کے بعد ہی آپ کوسکون ملا ۔
یہ دونوں واقعات حدیث وسیرت کی مستند کتابوں میں مذکور ہیں ، لہٰذا انہیں ضعیف یا موضوع قرار دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ اوّل الذکر واقعہ کومشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب سیرۃ ابن اسحاق (تحقیق ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ص ۵۸) میں بیان کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر ؒ، جوبہت بڑے محدّث ہیں ، انہوں نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔ (السیرۃ النبویۃ، ۱؍۲۵۱) امام حاکمؒ نے بھی المستدرک علی الصحیحین میں اس کو بیان کیا ہے اوراسے امام مسلم ؒ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اورامام ذہبی ؒ نے اس کی تائید کی ہے۔دیگر کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔ مثلاً دلائل النبوۃ ، ابونعیم ،ص ۱۴۳، الخصائص الکبریٰ ، سیوطی۱؍۲۱۹ ، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ، محمد بن یوسف الشامی، ۲؍۹۹۔۱۰۰۔
دوسرا واقعہ صحیح بخاری(کتاب الصلوٰۃ ، باب کراہیۃ التعرّی فی الصلاۃ وغیرھا ، ۳۶۴، کتاب الحج، باب فضل مکۃ وبنیانہا، ۱۵۸۲، کتاب مناقب الانصار، باب بنیان الکعبۃ ، ۳۸۲۹) اور صحیح مسلم (کتاب الحیض ، باب الاعتناء بحفظ العورۃ ، ۳۴۰) میں مروی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے۔ آپ کی پیدائش ، پرورش ، جوانی ، بڑھاپا، سب انسانوں کی طرح گزرا ہے ۔ آپؐ پر انسانی کیفیات طاری ہوتی تھیں ۔ جولوگ آپؐ کو مافوق البشر سمجھتےہیں انہیں مذکورہ بالا واقعات کودرست سمجھنے میں تردّد ہوتا ہے۔ یہ واقعات معتبر کتب حدیث وسیرت میں مذکور ہیں ۔ اس لیے ان کی تردید کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ذہنی سانچے کودرست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔