جواب
رشتے دار بعض معصیتوں میں مبتلا ہوں تو ان سے مکمل قطع تعلق کرلینا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ تعلقات باقی رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ کفر سے بڑھ کر اور کیا معصیت ہوسکتی ہے۔ لیکن قرآن صراحت کرتا ہے کہ کسی کے ماں باپ کافر ہوں اور وہ اپنے بیٹے کو بھی شرکیہ اعمال میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تو بیٹے کو چاہیے کہ ان کی یہ بات تو نہ مانے، لیکن ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کرتا رہے۔ سورۂ لقمان میں ہے:
وَ اِنْ جٰھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌلا فَلاَ تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًاز (لقمان:۱۵)
’’اور اگر وہ (والدین) تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے، جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ۔‘‘
اگر کسی رشتے دار کے ذرائع آمدنی میں متعین طور پر حرام کا غلبہ ہو تو اس کے یہاں کھانے پینے، یا اس کے تحائف قبول کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، لیکن دیگر معاملات میں اس سے تعلقات استوار رکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔