جواب
عقیقے کا وقت کسی بچے کی پیدائش کے بعد سے شروع ہوتا ہے، چنانچہ پیدائش سے قبل کیا گیا عقیقہ صحیح نہ ہوگا اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو بعض فقہاء نے چودہویں دن اور اس دن بھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن عقیقہ کرنے کو مسنون قرار دیا ہے۔ اس کے بعد وہ مباح کے درجے میں آجاتا ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک بالغ ہونے سے پہلے تک عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔
عقیقہ کرنا اصلاً باپ کی ذمے داری ہے۔ اگر کوئی دوسرا کردے تو بھی ہوجائے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پیدائش پر ان کا عقیقہ کیا تھا۔ (۱)
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو مختلف تعبیرات اختیار کی گئی ہے ان کی بنا پر حکم کی نوعیت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک سنت مؤکدہ، مالکیہ کے نزدیک مستحب اور احناف کے نزدیک مباح ہے۔ (۲)
احناف کے نزدیک چوں کہ عقیقے کا تاکیدی حکم نہیں ہے، اس لیے نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔