جواب
دیگر زبانوں کی طرح عربی میں بھی بہت سے الفاظ بہ طور مترادف مستعمل ہیں ۔ ایسے متعددالفاظ کا استعمال قرآن کریم میں بھی ملتا ہے ۔ علماء لغت نے ایک بحث یہ کی ہے کہ جن الفاظ کو مترادف سمجھا جاتا ہے ، ان کے درمیان بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے ۔ دو مترادف سمجھے جانے والے الفاظ سوفی صد ایک معنیٰ میں نہیں ہوسکتے۔ ’فروق لغویہ ‘ کے موضوع پر عربی زبان میں متعدد کتابیں پائی جاتی ہیں ۔ اردو زبان میں اس موضوع پر ایک اچھی کتاب ’مترادفات القرآن ‘ کے نام سے ہے، جو مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تالیف ہے اوراس کی اشاعت ۲۰۰۹ء میں مکتبہ السلام لاہور سے ہوئی ہے۔اس کتاب سے متعلقہ بحث کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے:
۱- قلب : مشہور عـضو۔ روح وحیات کا منبع (جمع قلوب) ۔ عقل ، فہم ، سوچ، فکرکے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کومخاطب بنایا ہے ۔ یعنی جوافعال جدید طب نے دماغ سے متعلق بتلائے ہیں ، قرآن نے دل سے متعلق کیے ہیں ۔ ارشاد باری ہے :
لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا ز (الاعراف: ۱۷۹)
’’ ان کے دل تو ہیں ، لیکن وہ ان سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘‘
۲۔فؤاد:بعض علماء نے کہا ہے کہ جو فرق ’عین ‘ اور ’ بصر ‘ یا ’اُذن ‘ اور ’سمع ‘ میں ہے ، وہی فرق ’قلب ‘ اور ’فؤاد ‘ میں ہے۔ اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۳۶
(بنی اسرائیل۳۶:)
’’بے شک کان، آنکھ اوردل، ان سب (جوارح )سے ضرور باز پرس ہوگی ۔‘‘
لیکن یہ صحیح نہیں .....فؤاد (جمع افئدۃ) فاد سے مشتق ہے .....یہ لفظ گرمی اور شدیدحرارت پردلالت کر تاہے ۔ لہٰذا جہاں انسان کے جذ با ت کی شدت اور اس کی تاثیر کا ذکر آئے گا وہاں اس لفظ کا استعمال ہوگا۔ مثلاً:
وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاط (القصص۱۰:)
’’اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا (یعنی اس میں قرار نہ رہا)‘‘
مُہْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِہِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْہِمْ طَرْفُہُمْ۰ۚ وَاَفْــِٕدَتُہُمْ ہَوَاۗءٌO (ابراہیم۴۳:)
’’سر اُٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں (بھی) ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور دل(دہشت کے مارے)اُڑرہے ہوں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فؤاد سے جس باز پر س کا ذکر فرمایا ہے وہ ایسے ہی اعمال سے متعلق ہوگی جوشدتِ جذبات کے تحت انسان کربیٹھتا ہے۔
۳- صدر: بہ معنی سینہ(جمع صدور) اورسینہ کے اند رہی دل ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا:
وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۴۶ (الحج: ۴۶)
’’لیکن وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔‘‘
لہٰذا کبھی صرف ’ صدور ‘ کہہ کر قلوب مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے شِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ (یونس۵۷:) ۔اب چوں کہ صدر کا تعلق ظرف مکان سے ہے ، لہٰذا اگردل کی تنگی یا فراخی کاذکر مطلوب ہوتو صدور کا لفظ آئے گا ۔ مثلاً:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ۹۷ۙ (الحجر۹۷:)
’’ اورہم جانتے ہیں کہ ان کی باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے ۔‘‘
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ۱ۙ (الم نشرح۱:)
’’ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔‘‘
پھرکسی چیز کو چھپانے کے لیے بھی چوں کہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا راز کی بات کے چھپانے، خیالات اوروسواس کے ذکر میں بھی صدر کا استعمال ہوگا۔مثلاً:
یَعْلَمُ خَائِنَۃُ الاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُO (المؤمن۱۹:)
’’وہ آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے اورجو باتیں دلوں میں ہیں ان کوبھی جانتا ہے۔‘‘
الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ Oلا (الناس۵:)
’’وہ( شیطان ) لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔‘‘
۴۔ اس معنیٰ میں قرآن میں ایک اورلفظ کا بھی استعمال ہوا ہے اوروہ ہے ’ نفس ‘ (جمع نفوس)۔ اس سے خواہشات کا مبدأ اورآرزو کرنے اورخوش ہوجانے والا دل مراد ہوتا ہے ۔ جہاں تک پوشیدہ باتوں اور خیالات وغیرہ کو چھپانے کا تعلق ہے ، یہ صفت نفوس اورصدور میں مشترک ہے۔ ارشاد باری ہے :
وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللہُ مُبْدِيْہِ (الاحزاب۳۷:)
’’اورتم اپنے دل میں وہ چیز چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنےوالا تھا۔‘‘
خواہشات کا تعلق نفس سے ہوتا ہے ، خواہ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ ارشاد باری ہے :
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُج (النجم۲۳:)
’’ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اورخواہشاتِ نفس کے پیچھے چل رہے ہیں ۔‘‘
خوش ہونے کا تعلق بھی نفس سے ہوتا ہے ۔ ارشاد باری ہے :
فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَكُلُوْہُ ہَنِيْۗـــــًٔـا مَّرِيْۗــــــًٔـا۴
(النسآ۴:)
’’پھر اگروہ عورتیں اپنے دل کی خوشی سے اس( یعنی اپنے مہر) میں سے تمہارے لیے کچھ چھوڑدیں تواسے شوق سے کھا ؤ۔‘‘
اس تفصیل سے ’دل ‘ کے لیے قرآن میں مستعمل الفاظ (قلب، فؤاد، صدر اور نفس ) کے درمیان فرق کی کچھ وضاحت ہوجاتی ہے۔