جواب
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ اب مردوں کی طرح خواتین میں بھی دینی بیداری آ رہی ہے اور دین کی جانب ان کا میلان بڑھ رہا ہے۔ یہ بات جہاں بہ حیثیت مجموعی پورے مسلم معاشرے کے بارے میں درست ہے وہیں تحریک اسلامی کے اندر بھی اس کا مشاہدہ ہورہا ہے۔ چنانچہ اجتماعات میں ان کی شرکت میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں ۔
خواتین کے علاحدہ اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں اور مشترکہ اجتماعات میں بھی وہ شریک ہوسکتی ہیں ۔ یہ اجتماعات مساجد میں بھی ہوسکتے ہیں اور دیگر مقامات پر بھی۔ علاحدہ اجتماعات میں بہتر یہ ہے کہ تقریر کرنے یا درس دینے والی بھی خواتین ہی ہوں ، لیکن بہ وقت ضرورت مرد بھی یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔ صدر اول میں اس طرح کی تمام مثالیں موجود ہیں ۔ عہد نبویؐ اور عہد خلفائے راشدین میں مسجد نبویؐ اور دیگر مساجد میں جمعہ کے جو خطبے ہوتے تھے ان سے خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ بعض خواتین نے اللہ کے رسول ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے لیے الگ سے کوئی وقت اور جگہ متعین کردیں ، کہ ان کے بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جنھیں وہ مشترکہ مجلسوں میں نہیں بیان کرسکتیں ۔ آپ ﷺ نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔ (۱)
ایک مرتبہ آپؐ نے عید کا خطبہ دیا۔ آپؐ کو محسوس ہوا کہ آپؐکی آواز خواتین تک نہیں پہنچی ہے، جو کہ کچھ فاصلے پر اکٹھا تھیں ۔ آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و تلقین فرمائی۔ اس موقع پر حضرت بلالؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔(۲) فتح مکہ کے اگلے دن آپؐ نے حضرت عمر بن الخطابؓ کو ذمے داری دی کہ وہ اس جگہ جائیں جہاں خواتین اکٹھا ہیں اور ان سے بیعت لیں ۔ حضرت عمرؓ نے یہ خدمت انجام دی۔
ایسے اجتماعات، جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شریک ہوں ، ان میں دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے، کہ قرآن و حدیث میں ان کی تاکید آئی ہے:
(۱) مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط نہ ہو: اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ اجنبی مردں اور عورتوں کا اختلاط پسند نہیں کرتی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خواتین کو مسجد آکر باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام فرمایا کہ ان کی صفیں پیچھے رکھیں اور ان کے اور مردوں کی صفوں کے درمیان بچوں کی صفیں بنائیں ۔ ساتھ ہی مسجد میں عورتوں کے داخلے کے لیے ایک دروازہ خاص کردیا، جس سے مردوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ یہ بھی حکم دیا کہ نماز ختم ہونے کے بعد خواتین پہلے چلی جائیں ، مرد بعد میں نکلیں ۔ ایک مرتبہ آپؐ نے راستے میں مردوں اور عورتوں کو خلط ملط چلتے دیکھا تو ایسا کرنے سے منع کیا اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ کنارے ہوکر چلا کریں ۔(۱) اس لیے مشترکہ اجتماعات میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہونی چاہئیں ۔ جہاں اجتماع ہورہا ہو وہاں اگر داخلے کے دو یا دو سے زیادہ دروازے ہوں تو ایک دروازے کو عورتوں کے لیے خاص کردینا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ایسی تدبیریں اختیار کرنی چاہئیں کہ اجتماع کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط نہ ہو۔
(۲) خواتین کی جانب سے زینت کا اظہار نہ ہو: خواتین کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کے جو آداب قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ۔‘‘ (النور: ۳۱) اس کے لیے انھیں ’جلباب‘ (چادر وغیرہ) استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (الاحزاب: ۵۹) اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں مسجد میں آنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ وہ خوشبو لگا کر اور بناؤ سنگار کرکے نہ آئیں ۔(۲) اس لیے مشترکہ اجتماعات میں شریک ہونے والی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی زینت کا دکھاوا نہ کریں ، خوشبو لگا کر نہ آئیں اور ان کا لباس ساتر ہو۔
خواتین کو پردہ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں چہرہ شامل ہے یا نہیں ؟ اس معاملے میں شروع سے علمائے امت کا اختلاف رہا ہے۔ سورۂ النور اور سورۂ الاحزاب میں اس سلسلے میں جو احکام ہیں ان میں چہرے کے پردے کے سلسلے میں صریح الفاظ نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر جہاں بہت سے علماء چہرے کے بھی پردے میں شامل ہونے کے قایل ہیں وہیں بعض چہرے کو پردے میں شامل نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگوں میں بعض صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام بھی ہیں اور بعد کے محدثین اور علماء بھی۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ چہرے کا پردہ کرنے کی صورت میں عورت کا اچھی طرح پردہ ہوجاتا ہے، یا یہ کہ موجودہ دور ِ فتنہ میں بہتر ہے کہ عورت چہرے کا بھی پردہ کرے، لیکن اپنے نقطۂ نظر پر اصرار کرنے اور اسی کو روحِ شریعت قرار دینے کا ہمیں حق نہیں ۔ جو خواتین ساتر لباس استعمال کرتی ہیں اور پردے کے دیگر آداب کا بھی خیال رکھتی ہیں ، لیکن شریعت کی اس گنجایش کی بنا پر چہرے کا پردہ نہیں کرتیں انھیں بے پردہ اور روحِ شریعت سے نابلد کہنا مناسب نہیں ۔
یہ بات صحیح ہے کہ آنکھوں میں کشش پائی جاتی ہے، ان سے مثبت یا منفی جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور بہت سے فتنے ان کی راہ سے برپا ہوتے ہیں ، لیکن اس کا علاج آنکھوں یا چہرے کو چھپانا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو صریح الفاظ میں اس کاحکم دیا جاتا۔ لیکن اس کے بجائے نگاہیں نیچی رکھنے اور فتنے کے مقامات سے انھیں بچا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ
(النور: ۳۰، ۳۱)
’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔‘‘
یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ احادیث میں اس کی تشریح و تفصیل موجود ہے۔ اس کے مطابق کسی عورت یا مرد پر اچانک نگاہ پڑجانا قابل مواخذہ نہیں ، اصلاً ممانعت ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے، گھورنے اور نظر بازی کرنے کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت میں نگاہ کی آوارگی سے روکا گیا ہے۔
مردوں اور عورتوں کے مشترکہ دینی اجتماعات کی کوئی مخصوص شکل و صورت متعین کرنا ضروری ہے نہ مناسب۔ شریعت کے بتائے ہوئے آداب اور حدود کی رعایت کرتے ہوئے کوئی بھی صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔