ایک شخص نے مرض الموت میں کسی ایک وارث کے نام اپنے مکان یا کسی جائداد کا فرضی بیع نامہ کیا جودراصل ہبہ ہے اورا س کا ثبوت موجود ہے۔ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے اور کیا وہ بیع درست ہے؟
جواب
مرض الموت میں اپنے مال وجائداد میں کوئی ایسا تصر ف کرنا جس سے کسی وارث کا حق تلف ہوتا ہو اور کسی دوسرے وارث کو ترکہ میں اس کے شرعی حق وراثت سے زیادہ مل رہاہو، سخت گناہ ہے۔ اور اس طرح کے بہت سے تصرفات شرعاً باطل قرار پاتے ہیں۔
اگر کسی نے اپنے مکان یا کسی دوسری جائداد کا کسی وارث کے نام فرضی بیع نامہ لکھا ہوجو درحقیقت ہبہ ہو تو اس کا حکم وصیت کا ہوگا۔ اور کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے مرض الموت میں اس طرح کا تصرف شرعاً باطل ہے۔ اس مکان یا جائداد میں بھی تمام وارثوں کا حق ہوگا۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں کئی جگہ اس مسئلہ کے بارے میں جوابات موجود ہیں۔ میں یہاں اس کی عبارتیں نقل کرتاہوں۔ ایک جگہ لکھاہے
’’مرض الموت میں ہبہ کرنا بحکم وصیت ہے اور وصیت وارثوں کے لیے درست نہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ہفتم وہشتم ص ۹۱۔۹۲ مطبوعہ کتب خانہ امداد یہ دیوبند)
دوسری جگہ لکھا ہے
’’مرض الموت میں ہبہ کرنا بحکم وصیت ہے اور وصیت وارثوں کے لیے صحیح نہیں ہے۔‘‘
(ایضاً ص۳۰۲)
تیسری جگہ لکھا ہے
’’اور مرض وفات میں جو تصرف کیاجاتا ہے وہ بحکم وصیت ہوتا ہے اور وارثوں کے حق میں کوئی وصیت بلااجازت دوسرے وارثوں کے نافذ نہیں ہوتی۔ حدیث میں ہے
لاوصیۃ لوارث الا ان تجیز الورثۃ کذا فی الدرالمختار۔ (ایضاً ص۳۵۶)
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ کسی وارث کے نام مرض الموت میں ایسی بیع جس کا کوئی معاوضہ نہ لیاگیاہو دراصل اس وارث کو ہبہ کرنا ہے۔ اور مرض الموت میں کسی وارث کو مال یاجائداد ہبہ کرنا وصیت کے حکم میں ہے اس لیے وہ فرضی بیع درست نہیں ہے۔ (جون ۱۹۷۹ء ج۶۲ ش۶)