آیت رجم کے متعلق جناب نے جو بحث ترجمان میں فرمائی ہے،آپ نے اس کے ثبوت میں تأمل فرمایا ہے۔حالاں کہ بخاری شریف میں نوکر اور سیدہ کے زناکے معاملے میں لڑکے کے والد کا حضور ﷺ کو عرض کرنا، انْشُدُکَ اللّٰہَ اِلاَّ قَضَیْتَ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ، اور حضورﷺ کا فرمانا: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَاَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ({ FR 2041 })ان دونوں قسموں کے بعد کون سا اشتباہ رہ جاتا ہے؟کیا حضورؐ کی قسم ہمارے یقین کے لیے ناکافی ہے؟ یا بخاری کی احادیث کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر فاروق اعظمؓ کے خطبہ فَکَانَ مِمَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَرَ أنَاھَا وَعَقَلْنَا ھَا وَوَعَیْنَاھَا ({ FR 2042 }) سے ہمیں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ یوم الجمعہ مسجد میں فقہا صحابہ کی موجودگی میں کتاب اﷲ ورسول اﷲ پر افترا کرسکتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر نعوذ باﷲ جو صحابہؓ موجود تھے،وہ سب حرارتِ ایمانی سے خالی ہوچکے تھے۔ ایک نے بھی نہ ٹوکا۔ جو ایک قمیص کے ٹکڑے پرحضرت عمرؓ کو اسی منبر پر ٹوک سکتے ہیں کتاب اﷲ پر افترا میں نہ ٹوک سکے۔ یا قرآن سے ایک قمیص کا ٹکڑا زیادہ قیمتی تھا؟ آپ کا یہ فرمانا کہ عمرؓ کے اس قول پر اجماع منعقد نہیں ہوا،اس لیے کہ سب صحابہؓکی موجودگی یقینی نہیں ، کیا صحابہ صلاۃ جمعہ سے بھی غیر حاضری کرتے تھے؟ حضرت عبدالرحمانؓکا یہ فرمانا: فَإِنَّھَا دَارُالْھِجْرَۃِ وَالسُّنَّۃِ فَتَخْلُصُ بِأَھْلِ الْفِقْہِ وَأشْرَافِ النَّاسِ ({ FR 2043 }) صاف تصریح نہیں ؟ ان دنوں فقہاے صحابہ مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔بالفرض اگر تمام موجود نہ تھے،کیا موجود حضرات نے غیر موجود حضرات سے اس مسئلے کی تصدیق یا تکذیب کسی نے نہ کرائی؟اگر واقعی صحابہ کا کتاب اﷲ کے ساتھ یہی تساہل وتغافل رہا ہے اور کتاب اﷲ میں کمی بیشی ہوتی رہی تو روا فض بالکل حق بجانب ہیں ۔مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت سے مدلل بیان فرما ویں ۔ حضورﷺ کی قسم اور عمرؓ کا تشدیدی خطبہ، حدیث بخاری کے مقابل کوئی قوی دلیل چاہیے۔کسی مفسر ومجتہد کا قول مشکل سے مقابل ہوسکے گا۔
جواب

آپ کا یہ اعتراض میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ترجمان القرآن ماہ نومبر
۱۹۵۵ء میں میری وہ بحث پوری طرح پڑھنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی جس پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں ۔بخاری کی جس حدیث کا آپ ذکر کررہے ہیں ،اس کی تأویل میں نے پوری وضاحت کے ساتھ اپنے فقرہ نمبر۶ میں کی ہے جو مذکورہ بالا رسالے میں صفحہ ۵۸،۵۹ پر درج ہے۔اس کو پڑھ کر دیکھیے، پھر بتایئے کہ اس اعتراض کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے جو آپ نے کیا ہے؟ رہا فاروق اعظمؓ کی تقریر کا معاملہ، تو اس پر میں نے خود اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہے۔ہدایہ کے مشہور شارح علامہ ابن ہمامؒ کی جو عبارت مشہور مفسر قرآن علامہ آلوسیؒ نے ’’روح المعانی‘‘میں نقل کی تھی،اس کا صرف ترجمہ کردیا ہے۔ لیکن آپ کے نزدیک قصور وار پھر بھی میں ہی رہا۔ ان دونوں بزرگوں کو خطاب کرکے آپ نے کچھ نہ فرمایا۔ اس سلسلے میں آپ کے مزید اطمینان کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اسی خطبے میں حضرت عمرؓ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ:
وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ({ FR 1920 }) ’’کتاب اﷲ میں رجم حق ہے اس مرد وعورت پر جو احصان کے بعد زنا کرے جب کہ اس پر یا تو شہادت قائم ہوجائے یا حمل پایا جائے یا وہ خود اعتراف کرے۔‘‘
اس خطبے کا یہ ٹکڑا کہ حمل بجاے خود سزاے رجم کے لیے کافی ثبوت ہے،جمہور فقہا نے تسلیم نہیں کیا ہے۔علامہ شوکانی ؒ ’’نیل الاوطار ‘‘میں اس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ جمہور اس طرف گئے ہیں کہ مجرد حمل سے حد ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے یا تو شہادت زنا ہونی ضروری ہے یا پھر اعتراف ،اور اس راے کے حق میں وہ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو شبہات میں حد جاری کرنے سے منع کرتی ہیں ۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کا قول ہے اور اس کی دلیل پر اتنا بڑا حکم ثابت نہیں ہوسکتا جو ہلاکت نفوس تک نوبت پہنچاتا ہو۔ رہی یہ بات کہ حضرت عمرؓ نے یہ مسئلہ صحابہ کرامؓ کے مجمع میں بیان کیا تھا اور اس پر کسی نے انکار نہ کیا، تو یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ سامعین کے انکار نہ کرنے سے اجماع لازم نہیں آتا۔‘‘({ FR 2044 })
( ترجمان القرآن، مئی۱۹۵۶ء)