کیا مختلف علاقوں کے لیے مصالحتی مجالس مقرر کی جائیں اور کسی طلاق کو اس وقت تک صحیح تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ فریقین ان مجالس کی طرف رجوع نہ کر چکے ہوں جن میں زوجین کے خاندانوں کی طرف سے بھی ایک ایک حَکَم شامل ہو؟
جواب
اس طرح کی مصالحتی مجالس تو ضرور قائم ہونی چاہییں اور عدالتوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کرنا چاہیے کہ وہ ازدواجی نزاعات کا فیصلہ کرنے سے پہلے قرآنِ مجید کے مقرر کردہ طریقہ تحکیم پر عمل کریں ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جس طلاق کا معاملہ مصالحتی مجالس یا خاندانی حَکَموں کے سامنے نہ گیا ہو اس کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ شریعت کی رُو سے ہر وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے جس میں طلاق کے ارکان و شروط پائے جائیں ۔ اس کے وقوع کی شرائط میں شرعاً یہ چیز شامل نہیں ہے کہ آدمی کسی حَکَم یا مصالحتی مجلس سے رجوع کرے۔ اب اگر ایسی طلاق جو شرعاً واقع ہو چکی ہو، عدالتیں تسلیم نہ کریں تو لوگ سخت پیچیدگی میں پڑ جائیں گے اور یہ قاعدہ اسلامی شریعت سے متناقض ہو جائے گا۔