کیا یہ قانون ہونا چاہیے کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف تنخواہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو عدالت دلوائے؟ اور جو لوگ تنخواہ دار نہیں بلکہ دوسرے ذرائع آمدنی رکھتے ہیں ان سے عدالت ضمانت لے کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم نصف پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو دیتے رہیں گے؟
جواب

یہ تجویز بالکل غلط ہے۔ ایک آدمی لازماً صرف اپنے ہی بال بچوں کا کفیل نہیں ہوتا بلکہ والدین، چھوٹے بہن بھائی اور دوسرے مستحق اعزہ بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کی انھیں خدمت اور کفالت کرنی ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ ضابطہ بنا دینا کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف آمدنی ضرور پہلی بیوی کو دلوائی جائے سراسر بے انصافی ہے۔ پھر اگر پہلی بیوی بے اولاد ہو اور دوسری صاحبِ اولاد تو یہ کس اصولِ انصاف کا تقاضا ہے کہ شوہر کی آدھی آمدنی بے اولاد بیوی کے لیے مخصوص کر دی جائے اور دوسری بیوی اولاد سمیت بقیہ نصف میں گزر کرے؟ شریعت ایسے اندھے ضابطے بنانے کے بجاے یہ قاعدہ مقرر کر تی ہے کہ بیویوں کے درمیان شوہر خود عدل کرے اور اگر کسی بیوی کی طرف سے بے انصافی کی شکایت عدالت میں آئے تو قاضی اس خاندان کے حالات کو دیکھ کر انصاف کی مناسب صورت تجویز کر دے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۵ء)