ماہنامہ ترجمان القرآن نومبر۱۹۶۳ء کے پرچے میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا جو مسئلہ خلافت کے مطالعے سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں ۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئینِ ترجمان کے معلومات میں اضافے کا موجب بنے۔ ’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ امام اعظم ؒ نہ تو خوارج ومعتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پاسکے اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کر رہ جائے، اور نہ وہ مرجیہ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہاپسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں ، وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے۔ لیکن یہ امامت بجاے خود ناجائز اور باطل ہوگی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد وبدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہوجانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے۔‘‘ اور ’’امام اعظمؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے‘‘ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبے سے بھی مسلّط ہو جائے جس کو فقہا کی اصطلاح میں ’’ متغلب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم وفاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، مگر امام ابوحنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ میں معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج وبغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ میری اس راے کی تائید فقہاے مذہبِ حنفی کے درج ذیل اقوال سے ہوسکتی ہے: (وَالْإِمَامُ يَصِيرُ إمَامًا) بِأَمْرَيْنِ (بِالْمُبَايَعَةِ مِنْ الْأَشْرَافِ وَالْأَعْيَانِ،[ ...] وَكَذَا بِاسْتِخْلَافِ إمَامٍ قَبْلَهُ وَكَذَا بِالتَّغَلُّبِ وَالْقَهْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمَقَاصِدِ. قَالَ فِي الْمُسَايَرَةِ: وَيَثْبُتُ عَقْدُ الْإِمَامَةِ إمَّا بِاسْتِخْلَافِ الْخَلِيفَةِ إيَّاهُ كَمَا فَعَلَ أَبُو بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، وَإِمَّا بِبَيْعَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَوْ مِنْ أَهْلِ الرَّأْي وَالتَّدْبِيرِ. وَعِنْدَ الْأَشْعَرِيِّ يَكْفِي الْوَاحِدُ مِنْ الْعُلَمَاءِ الْمَشْهُورِينَ مِنْ أُولِي الرَّأْيِ بِشَرْطِ كَوْنِهِ بِمَشْهَدِ شُهُودٍ لِدَفْعِ الْإِنْكَارِ إنْ وَقَعَ. وَشَرَطَ الْمُعْتَزِلَةُ خَمْسَةً. وَذَكَرَ بَعْضُ الْحَنَفِيَّةِ اشْتِرَاطَ جَمَاعَةٍ دُونَ عَدَدٍ مَخْصُوصٍ ثُمَّ قَالَ: لَوْ تَعَذَّرَ وُجُودُ الْعِلْمِ وَالْعَدَالَةِ فِيمَنْ تَصَدَّى لِلْإِمَامَةِ وَكَانَ فِي صَرْفِهِ عَنْهَا إثَارَةُ فِتْنَةٍ لَا تُطَاقُ حَكَمْنَا بِانْعِقَادِ إمَامَتِهِ كَيْ لَا تَكُونَ كَمَنْ يَبْنِي قَصْرًا وَيَهْدِمُ مِصْرًا، وَإِذَا تَغَلَّبَ آخَرُ عَلَى الْمُتَغَلِّبِ وَقَعَدَ مَكَانَهُ انْعَزَلَ الْأَوَّلُ وَصَارَ الثَّانِي إمَامًا وَتَجِبُ طَاعَةُ الْإِمَامِ عَادِلًا كَانَ أَوْ جَائِرًا إذَا لَمْ يُخَالِفْ الشَّرْعَ، فَقَدْ عُلِمَ أَنَّهُ يَصِيرُ إمَامًا بِثَلَاثَةِ أُمُورٍ، لَكِنَّ الثَّالِثَ فِي الْإِمَامِ الْمُتَغَلِّبِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ فِي شُرُوطِ الْإِمَامَةِ({ FR 2256 }) بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت امامت کے لیے نہیں بلکہ اولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔ وَعِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ لَيْسَتْ الْعَدَالَةُ شَرْطًا لِلصِّحَّةِ فَيَصِحُّ تَقْلِيدُ الْفَاسِقِ الْإِمَامَةَ مَعَ الْكَرَاهَة۔۔۔ ({ FR 2257 }) اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔ وتصح سلطنۃ متغلب للضرورۃ ایسے فاسق کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے: وَيَجِبُ أَنْ يُدْعَى لَهُ؛ وَلَا يَجِبُ الْخُرُوجُ عَلَيْهِ؛ كَذَا عَنْ أَبِي حَنِيفَة۔ یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسائرہ میں ذکر کی ہیں ۔ جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقے سے انجام دیے جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں ۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجبِ فتنہ نہ ہوں ۔ اور چونکہ فی زماننا ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہوجاتا ہے اس لیے بعض احناف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَيْهِمْ وَقِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنْ كَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِين({ FR 2258 }) اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہوگا۔ مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں ۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں ۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو جماعت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں ۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہاے حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں : امام سرخسیؒ لکھتے ہیں : ’’فَإِنْ كَانَ الْمُسْلِمُونَ مُجْتَمَعِينَ عَلَى وَاحِدٍ، وَكَانُوا آمِنِينَ بِهِ، وَالسَّبِيلُ آمِنَةً فَخَرَجَ عَلَيْهِ طَائِفَةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَحِينَئِذٍ يَجِبُ عَلَى مَنْ يَقْوَى عَلَى الْقِتَالِ أَنْ يُقَاتِلَ مَعَ إمَامِ الْمُسْلِمِينَ الْخَارِجِينَ۔({ FR 2259 }) وجوب قتال کے لیے امام سرخسیؒنے تین دلائل بیان کیے ہیں ، جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے: فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىہُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللہِ ({ FR 2260 }) ( الحجرات:۹) ۔ دوسری دلیل امام موصوف نے وجوبِ قتال کے لیے یہ بیان کی ہے: وَلِأَنَّ الْخَارِجِينَ قَصَدُوا أَذَى الْمُسْلِمِينَ وَإِمَاطَةَ الْأَذَى مِنْ أَبْوَابِ الدِّينِ، وَخُرُوجُهُمْ مَعْصِيَةٌ، فَفِي الْقِيَامِ بِقِتَالِهِمْ نَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ وَهُوَ فَرْضٌ۔({ FR 2261 }) اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے: قال وَلِأَنَّهُمْ يُهَيِّجُونَ الْفِتْنَة قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’الْفِتْنَةُ نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَا‘‘ فَمَنْ كَانَ مَلْعُونًا عَلَى لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْه يُقَاتَلُ مَعَهُ({ FR 2262 }) ان تمام عبارات سے یہ توواضح ہوگیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطۂ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہوں ۔ اس کی طرف حضورﷺ کے درجِ ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ...({ FR 2263 }) پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے مذہبِ حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں : وَأَمَّا، بَيَانُ مَنْ يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْهُمْ ، وَمَنْ لَا يَجُوزُ فَكُلُّ مَنْ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ مِنْ الصِّبْيَانِ وَالنِّسْوَانِ وَالْأَشْيَاخِ وَالْعُمْيَانِ لَا يَجُوزُ قَتْلُهُ مِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ ؛ لِأَنَّ قَتْلَهُمْ لِدَفْعِ شَرِّ قِتَالِهِمْ فَيَخْتَصُّ بِأَهْلِ الْقِتَالِ وَهَؤُلَاءِ لَيْسُوا مِنْ أَهْلِ الْقِتَالِ ، فَلَا يُقْتَلُونَ إلَّا إذَا قَاتَلُوا ، فَيُبَاحُ قَتْلُهُمْ فِي حَالِ الْقِتَالِ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِتَالِ ۔ ({ FR 2264 }) فقہا کی ان تصریحات کے پیشِ نظر باغیوں کے متعلق امام ابو حنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہوچکے ہوں ۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اور قتل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں ۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کر دیا جائے گا۔ البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انھیں واپس کیا جائے گا وَكَذَلِكَ مَا أُصِيبَ مِنْ أَمْوَالِهِمْ يُرَدُّ إلَيْهِمْ ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُتَمَلَّكْ ذَلِكَ الْمَالُ عَلَيْهِمْ لِبَقَاءِ الْعِصْمَةِ وَالْإِحْرَازِ فِيهِ({ FR 2265 }) فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں ، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کرسکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کرچکے تھے کہ اگر ہم نے آئندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہوگا یا نہیں ، اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابو حنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اور مال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں ؟ پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سرخسیؒ کے بیان کو صرف اس بنا پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہلِ تاریخ سے مختلف ہے حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملے میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امامِ فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں ۔ تاریخ کے واقعات مرتب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہوسکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امامِ مذہب کی فقہی مرویات مرتب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں ۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سرخسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابنِ ہمامؒ نے (فتح القدیر، ج۵، ص۳۴۱) میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلے میں ابن اثیر یا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔
جواب

امام ابو حنیفہؒ کے مسلک دربابِ خروج کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کے متعلق مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو تین باتوں پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں ۔
اول یہ کہ ابو بکر جصّاص، الموفق المکی اور ابن البزاز الکَردری کا شمار بھی فقہاے حنفیہ میں ہوتا ہے یا نہیں ؟ آپ سے یہ مخفی نہیں ہوسکتا کہ ابو بکر جصّاص متقدمینِ حنفیہ میں سے ہیں ، ابو سہل الزجاج اور ابو الحسن الکرخی کے شاگرد ہیں اور اپنے زمانے میں (۳۰۵-۳۷۰ھ) امامِ اصحابِ ابی حنیفہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کی کتاب احکام القرآن کا شمار حنفیہ ہی کی فقہی کتابوں میں ہوتا ہے۔ الموفق المکی (۴۸۴-۵۶۸ھ) بھی فقہاے حنفیہ میں سے تھے اور القفطی کے قول کے مطابق کانت لہ معرفۃ تامۃ فی الفقہ والأدب۔({ FR 2266 }) الکَردَری کا شمار بھی فقہاے حنفیہ میں ہوتا ہے اور ان کی فتاویٰ بزازیہ، آداب الفقہائ اور مختصر فی بیان تعریفات الاحکام، معروف کتابیں ہیں ۔ مَیں نے جو موادان تین حضرات کی کتابوں سے بحوالہ نقل کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کی حیثیت پر بھی آپ کچھ روشنی ڈالیں ۔
دوم یہ کہ حضرت زیدؒ بن علی بن حسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام اعظم ؒ کا جو طرزِ عمل مذکورۂ بالا تینوں مصنفین اور بہت سے دوسرے مؤرخین نے بیان کیا ہے، اس کو آپ صحیح اور معتبر تاریخی واقعات میں شمار کرتے ہیں یا نہیں ۔ اگر یہ واقعات غلط ہیں تو آپ ان کی تردید کسی مستند ذریعے سے فرمائیں ۔ اور اگر یہ صحیح ہیں تو امام اعظمؒ کا مسلک سمجھنے میں ان سے مدد لی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ یہ بات تو بہرحال امام ابو حنیفہؒ جیسی عظیم شخصیت کے متعلق باور نہیں کی جاسکتی کہ ان کا فقہی مسلک کچھ ہو اور عمل کچھ۔ لہٰذا دو باتوں میں سے ایک بات ماننی ہی پڑے گی۔ یا تو یہ واقعات غلط ہیں ۔ یا پھر امام کے مسلک کی صحیح ترجمانی وہی ہوسکتی ہے جو ان کے عمل سے مطابقت رکھتی ہو۔
اہلِ موصل کے بارے میں شمس الائمہ سرخسی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گا کہ دوسرا بیان الکَرْدَرِی کا ہے، اور وہ بھی نرے مورّخ نہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں ۔ الکَرْدَری لکھتے ہیں کہ منصور نے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا: ألیس صح أنہ علیہ السّلام قال: المؤمنون عند شروطھم؟ واھل موصل شرطوا علیّ ان لا یخرجوا علیّ وقد خرجوا علیٰ عا ملی وقد حل لی دماء ھم۔({ FR 2267 }) امام ابو حنیفہؒ نے جواب میں فرمایا: انھم شرطو الک ما لا یملکونہ یعنی دماء ھم، فانہ قد تقرران النفس لا یجری فیھا البذل والا باحۃ علی ان الرجل اذا قال لآخر اقتلنی فقتلہ تجب الدیۃ وشرطت علیہم ما لیس لک، لان دم المسلم لا یحل الا باحدی معان ثلاث، فان اخذتھم اخذت بما لا یحل، وشرط اللہ احق ان توفیٰ بہٖ({ FR 2268 }) اس عبارت میں سائل اور مفتی دونوں نے تصریح کی ہے کہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق تھا۔