کچھ علما کی طرف سے آپ کے خلاف یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ آپ نے اپنی تحریروں میں صحابہ کرام پر نکتہ چینی کی ہے اور ان کے مقام و مرتبے کو پوری طرح سے ملحوظ نہیں رکھا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیے کہ احترام صحابہؓ کے بارے میں آپ کا مسلک کیاہے اور آیا اس سلسلے میں اہل سنت کے درمیان میں کوئی اختلاف راے پایا جاتا ہے۔
جواب

چونکہ یہ سوال آگیا ہے اس لیے اس کے متعلق چند کلمات کہہ دیتا ہوں ۔ دراصل میں کبھی ایسے اعتراضات کے جواب نہیں دیا کرتا جن کے متعلق مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراضات میرے خلاف ناراضی کی اصل وجہ نہیں ہیں بلکہ ناراضی کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور ادھر اُدھر کے یہ اعتراضات محض اس لیے نکالے جاتے ہیں تاکہ دنیا کو یہ یقین دلایا جائے کہ ہم اس شخص سے اپنے نفس کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ یہ شخص ایسا ظالم ہے کہ اس نے صحابہؓ اور انبیا سے متعلق یہ اور یہ کہہ دیا ہے بس ہم اس سے اس وجہ سے ناراض ہیں — تو جن لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوجاتا کہ ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور صحابہؓ اور انبیا کا محض بہانا بنایا جارہا ہے تو میں ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اپنی عمر تم اس کام میں کھپاتے رہو، میں اپنی عاقبت کے لیے جس کام کو صحیح اور ضروری سمجھتا ہوں اس کو کرتا رہوں گا تمھیں جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا البتہ جو اعتراضات کسی نہ کسی حد تک معقولیت یا دلیل کے ساتھ ہوتا ہے اس کا جواب میں پہلے بھی دیتا رہا ہوں اور آئندہ بھی ان شائ اللہ دینے کی کوشش کروں گا اور اعتراض معقول ثابت ہو گا تو اس کو مان بھی لوں گا اور اپنی اصلاح بھی کرلوں گا۔ بارہا میں نے ایسا کیا ہے۔ اب دیکھیے کہ اس معاملے میں ان لوگوں کے اعتراضات کی حقیقت کیا ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ کسی آدمی کی کسی ایک عبارت، یا کسی عبارت کے کسی ایک فقرے سے اس کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اس بارے میں یہ مسلک ہے درآنحالیکہ وہ اپنی بیسیویں عبارتوں میں اپنا مسلک واضح طور پر بیان کر چکا ہو یہ بجز ایک ضدی آدمی کے اور کسی کاکام نہیں ہوسکتا یعنی اگر ایک آدمی اپنے مسلک کی وضاحت باربار نہ صرف اپنے قول سے اور اپنی تحریروں سے کرچکا ہو بلکہ اس کا مسلک اس کے مجموعی طرز عمل سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہو تو اس کی کمی ایک عبارت یا ایک فقرے سے اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکالنا کسی معقول آدمی کاکام نہیں ہوسکتا اور نہ اس قسم کی حرکت کا علمی مقام ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ کو بتاتا ہوں کہ میری کتاب ’’تفہیم القرآن‘‘ موجود ہے اس میں میں نے جہاں کہیں فقہی مسائل یا دینی مسائل کے متعلق بحث کی ہے تو ان کے اندر آپ دیکھیں گے کہ میں نے صحابہ کرامؓ کے اقوال سے استدلال کیا ہے جہاں کہیں صحابہ کرامؓ کاذکر آیا ہے میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ روے زمین پر آفتاب نے کبھی ایسے انسان نہیں دیکھے تھے جیسے کہ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ تھے۔ تمام نوع انسانی کا بہترین گروہ اگر کوئی تھا تو وہ صحابہ کرامؓ تھے۔ پھر میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ صحابہ کرامؓ کا جس چیز پر اجماع ہو وہ دین میں حجت ہے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ آدمی کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اجماع کو اسی طرح تسلیم کرے،جس طرح سنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ اسی تفہیم القرآن میں دیکھ سکتے ہیں کہ میں مختلف مسائل میں صحابہ کرام کے اقوال نقل کرتا اور پھر ان کے اقوال میں سے کسی قول کو اختیار کرکے اس کی تائید میں اپنی راے بیان کرتا ہوں ۔
کیا یہ سارا کام کسی ایسے فرد کا ہوسکتا ہے جو صحابہؓ کے معاملے میں منفی ذہنیت رکھتا ہو؟
یہ تو ہوئی سوال کے اس حصے کی وضاحت کہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں میرا مسلک کیا ہے۔ اب بعض ایسے معاملات کو لیجیے جن کے بارے میں تمام محدثینؒ ، مفسرین اور مؤرخین کا ایک ہی ریکارڈ ہے اور ایک ہی ہوسکتا ہے۔ اگر بعض ایسے واقعات جو احادیث میں آئے ہیں یا جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے یا جو تاریخ سے ثابت ہیں تو محض ان واقعات کو بیان کرنا اگر گناہ ہے تو امت کے تمام محدثین اور مؤرخین اور مفسرینؒ سب گناہ گار قرار پاتے ہیں کوئی نہیں بچتا۔ خود قرآن مجید میں صحابہ کرامؓ کی بعض غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۂ الجمعہ میں ذکر کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور صرف بارہ صحابہؓ رہ گئے۔({ FR 1589 }) (بعض روایات میں یہ تعداد۴۰ آئی ہے) باقی سارے کے سارے خطبہ چھوڑ کر قافلے کی طرف چلے گئے۔ یہ قرآن مجید کا بیان کیا ہوا واقعہ ہے اور حدیث و تفسیر کی کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس میں سورۂ الجمعہ کی تفسیر میں اس واقعہ اور اس کی تفصیلات کو بیان نہ کیا گیا ہو۔ اگر اس چیز کا نام صحابہ کرامؓ پر نکتہ چینی ہے تو اس سے کون بچا ہے؟ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ابتدا کی اور اس کے بعد سارے محدثینؒ اور مفسرینؒ نے یہ کام کیا۔ اگر ان واقعات کو بیان کرنا صحابہ کرامؓ کی تنقیص اور نکتہ چینی ہے تو مجھے بتایا جائے کہ قرآن مجید اور اس امت کے عظیم دینی، علمی اور تفسیری خزانے کے ساتھ کیا سلوک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اب اس مسئلے کے ایک دوسرے پہلو کو لیجیے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ خود یہ چاہتا تھا کہ صحابہ کرام پر تنقید کی جائے؟ اگر نہیں چاہتا تو قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر کیوں کیا گیا کہ لوگ قیامت تک انھیں پڑھتے رہیں ؟ جنگ اُحد کے موقع پر جو پچاس صحابی ایک مقام پر بٹھائے گئے تھے اور وہ وہاں سے ہٹ گئے تھے ان کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ حدیث اور تاریخ کی کون سی کتاب ہے جس میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اب اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و حدیث میں ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد نکتہ چینی نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ سمجھانا مقصود ہے کہ صحابہ کرامؓ کے معاملے میں ہم وہی غلطی نہ کر بیٹھیں جو انبیاے بنی اسرائیل کی امتیں کرتی رہیں کہ پہلے اپنے انبیا کو خدا کی اولاد قرار دیا۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو چلڈرن آف گارڈ قرار دے لیا۔ قرآن و حدیث نے ہمیں صحابہ کرامؓ کے احترام کے ساتھ ساتھ انھیں انسان سمجھنے کا شعور بخشا ہے اور اس کی تربیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صحابہ کرامؓ سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی تو وہ قرآن و حدیث کے خلاف ایک بات کہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب قرآن و احادیث میں مختلف مثالوں کا ذکر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان ان کے برعکس موقف کس طرح اختیار کرسکتا ہے اور کس طرح سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر ان سے غلطی ہوئی تو اس کا بیان کرنا گناہ ہے؟ غلطی بھی ہوئی اور اسے بیان بھی کیا گیا حدیثوں اور تفسیروں میں بیان کیا گیا اور ائمہ کرام، محدثین اور مفسرین نے بیان کیا— اب اگر ان حقائق کے باوجود کوئی شخص قرآن و حدیث کے اصل منشا کو نظر انداز کرکے اسے صحابہ کرامؓ پر نکتہ چینی کرنا کہتا ہے تو اس کے صرف دو سبب ہوسکتے ہیں ۔ ایسی بات کہنے والے یا تو ان پڑھ ہیں اورنہیں جانتے کہ احادیث اور تفسیر و فقہ میں کیا چیز موجود ہے۔
یا یہ لوگ جانتے تو سب کچھ ہیں مگر جان بوجھ کر غلط بات کہتے ہیں ۔ مقصد مخالفت ہے اور فریق بنا رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول اور صحابہ کرام کو… یعنی دل میں گرہ تو کسی اور چیز کی ہے اور اعتراض کچھ اور تصنیف کیا جارہا ہے۔
آخری بات میں یہ کہتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجیے کہ ان حضرات کی ناراضی کی وجہ یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں دوسروں کو گالیاں دینا جائز ہو جاتا ہے؟ صحابہ کرام کی خاطر ناراض ہونے والا شخص دوسرے شخص کی گھر کی خواتین پر توحملے نہیں کرسکتا۔ اگر آدمی فی الواقع کسی شخص سے حق کی خاطر ناراض ہو تو وہ اس پر بہتان تو نہیں باندھ سکتا۔ اس کی جسارتوں میں الٹ پھیر تو نہیں کرسکتا، اس کے خلاف جھوٹے الزامات تو تصنیف نہیں کرسکتا… اب اگر کوئی شخص یہ سارے کام بھی کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ کی خاطر یہ کام کر رہا ہے تو آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓکی توہین کون کر رہا ہے۔ (ہفت روزہ آئین لاہور،ستمبر ۱۹۶۹ئ)