آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے:
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:)
’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں :
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ )
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟

نزولِ وحی کی ابتدا کازمانہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی سے بچوں کے لیے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف جناب عرفان خلیلی ہیں ۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نزولِ وحی کا آغاز ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا ۔ہم نے اب تک پڑھا اور سنا ہے کہ ایسا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ، کیا صحیح ہے؟

گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اوربتائیں کہ کیا واقعی احادیث میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے ؟

بینک میں نام زدگی کا حکم

میری والدہ نے اپنی ذاتی ملکیت سے کچھ رقم ایک تجارتی کمپنی میں لگائی ہے ۔ یہ کمپنی، جسے قائم کرنے والے کچھ مسلمان ہیں ، اسلامی طرز پر منافع دیتی ہے ۔والدہ نے نامزدگی Nomination میرے بھائی کے نام کی ہے اوروہ چاہتی ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد کل رقم اسی کوملے ۔ کمپنی بھی رقم اسی شخص کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتی ہے جسے Nominate کیا گیا ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں مذکورہ رقم کا مالک صرف میرا بھائی ہوگا، یاوہ تمام ورثہ میں تقسیم ہوگی؟بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ؟

میراث کے چند مسائل

ایک پلاٹ خریدا گیا، جس میں ماں نے چالیس فی صد اور ایک بیٹے نے ساٹھ فی صد رقم لگائی۔ پلاٹ کی رجسٹر ی ماں کے نام سے ہوئی۔ ماں کے انتقال کے بعد جب ان کاترکہ تقسیم ہونے کی بات آئی تو رقم لگانے والے بیٹے کہہ رہے ہیں کہ اس پلاٹ کا ساٹھ فی صد حصہ میرا ہے ، اس لیے کہ اتنی رقم میں سے لگائی تھی۔ ماں کی محبت میں میں نے ان کےنام رجسٹری کرادی تھی ۔ دوسرے بھائیوں بہنوں کا حصہ اس پلاٹ کے صرف چالیس فی صد حصہ میں ہوگا۔ کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟

وصیت کس قدر کی جا سکتی ہے؟

کوئی شخص جس کی دو شادی شدہ لڑکیا ں ہیں ، لڑکا کوئی نہیں ہے، لڑکیوں کی اجازت کے بعد کیا وہ اپنی تمام جائیداد بیوی کے نام وصیت کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، بیوی کے بعد وہ جائداد لڑکیوں ہی کی ہوگی۔ اگر پوری جائیداد کی وصیت بیوی کے حق میں جائز نہیں تو کس قدر کی جا سکتی ہے؟

ورثا کے حق میں وصیت

صوبائی حکومت کاشت کی زمین میں وراثت میں بیٹی کو حصہ نہیں دیتی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کا حصہ مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے بیٹیاں وراثت سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ تو کیا اضطراری حالت میں بیٹی کے حق میں وصیت کرکے اسے حصہ دیاجاسکتا ہے؟ حالاں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مستحقینِ وراثت کے حق میں وصیت کی ممانعت فرمائی ہے۔ دیگر متبادل کی ﻻﻻبھی نشان دہی فرمائیں ۔

اولاد کوعاق کرنا

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کوعاق کردیا، یعنی اپنی وراثت سے اسے محروم کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں اپنی زندگی میں کسی کوکچھ یا سب دینے کا حق رکھتا ہوں تو میں کسی کو محروم کرنے کا بھی حق رکھتا ہوں ۔ کیا ان کایہ عمل درست ہے ؟

اولاد میں جائیداد کی تقسیم

تقسیم وراثت کے سلسلے میں دو مسئلے دریافت طلب ہیں ۔ براہِ کرم ان کے سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں :
۱- میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ وہ گاؤں پررہنے والے بھائیوں کے تصرف میں ہے۔ میں روزگار کے سلسلے میں شروع سے باہر رہا ۔ والد صاحب کے انتقال کوپچیس سال گزرگئے ہیں ۔ بہ ظاہر معلو م ہوتا ہے کہ بھائی میراث تقسیم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اورمجھے بھی تقاضا کرنے میں تکلف ہورہا ہے ۔ بتائیے، میں کیا کروں ؟
۲- میرے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔ سب شادی شدہ ہیں ، لڑکے خود کفیل ہیں ۔ میں نے حسب موقع ہر ایک کے مکان کی تعمیر کے وقت حسب گنجائش تعاون کیا ہے ۔ لڑکیوں کونقد کی شکل میں دیا ہے ۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا ہے جومیرے مرنے کے بعد بہ طور وراثت تقسیم ہو۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟

زندگی میں مال وجائیداد کی تقسیم

الحمدللہ میری تجارت میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی اورمیں نے خوب کمایا۔ کافی جائیداد پیدا کی ، کئی پلاٹس خریدے، کئی منزلہ کشادہ مکان بنوایا ۔ میری اہلیہ کے علاوہ تین لڑکے اورتین لڑکیاں ہیں ۔
میں نے سوچا کہ میں اپنی زندگی ہی میں تمام مال وجائیداد اپنے متعلقین میں تقسیم کردوں ۔ چنانچہ میں نے اس کا کچھ حصہ اپنے لیے الگ کرکے بقیہ ان میں تقسیم کردیا ۔ اہلیہ کو آٹھواں حصہ دیا اورلڑکوں لڑکیوں میں دوایک کے تناسب سے بانٹ دیا ۔ میری ایک لڑکی معذور ہے، اس لیے اس کا حصہ میں نے اپنے پاس رکھا ہے ۔
اب میں چاہتا ہوں کہ جوحصہ میں نے اپنے لیے الگ کیا تھا اسے صدقہ وخیرات کردوں ، تاکہ بارگاہ الٰہی میں اس کا اجر مجھے ملے ۔ میرے لڑکے اور لڑکیاں خود کفیل ہیں ، اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے اپنے لیےبچائے ہوئے حصے میں سے ان کوکچھ نہ ملے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا انتظام ہوجائے کہ میرے مرنے کے بعد میری معذور لڑکی کے حصے پر کوئی قبضہ نہ کرلے۔
بہ راہِ کرم اس معاملے میں میری رہ نمائی فرمائیں ۔