شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی صورت میں خلع کا طریقہ

ایک شخص اپنی بیوی پر دبائو ڈال کر اس کے میکے سے بار بار رقم منگواتا رہا۔ جب اس کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو بغیر اطلاع دیے کہیں چلا گیا۔ عورت اپنے میکے میں ہے۔ ایک سال سے زاید عرصہ ہو گیا ہے۔ اس نے دار القضاء میں اپنامعاملہ رکھا تو اس کے شوہر کو مفقود الخبرقرار دیتے ہوئے سات سال انتظار کرنے کو کہا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو منصوبہ بند طریقہ سے ستانے کے لیے خود کو روپوش کر لے یا بغیر اطلاع کے بیرون ملک چلا جائے تو کیا اس کو مفقود الخبر قرار دیا جائے گا؟ اس صورت میں اگر لڑکی خلع لینا چاہے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا؟

عورت کی جانب سے شوہر سے علیٰحدگی پر اصرار کا حل

اس عورت کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جس کی عمر پچاس (۵۰) برس ہے اورجوگزشتہ تین (۳) برس سے حائضہ نہیں اورگزشتہ پندرہ (۱۵) برس سے اپنے شوہر سے علٰیحدہ اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ شوہر سے اس کا کوئی جسمانی رابطہ اس عرصے میں نہیں ہوا اوروہ کسی بھی قیمت پر شوہر کے پاس جانے کے لیےتیار نہیں ہے، حتیٰ کہ شوہر نے اسے اپنے ساتھ حج پر لے جانے کا آفر کیا ، لیکن اس نے اس سے بھی انکار کردیا ۔ مزید بر آں اس نے دارالقضا ء میں خلع کا کیس بھی دائر کررکھا ہے اور ضابطہ کی تمام کارروائیاں مکمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے اوربھائیوں کی تحریری گواہیاں بھی کروادی ہیں اور جرح بھی مکمل ہوگئی ہے ، مگر شوہر نے بار بار بھیجے گئے سمّن اورنوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر بھی تقریباً ایک برس کی کارروائی کے بعد بھی قاضی صاحب نے خلع یا فسخ نکاح کا فیصلہ کرنے کے بجائے مزید گواہیاں طلب کرلیں ۔ یہ خاتون اپنے معاملے میں کوئی فیصلہ نہ ہونے کے باعث مستقل اذیت کا شکار ہے، وہ ملکی عدالت میں بھی جانا نہیں چاہتی۔
بہ راہِ کرم شریعت کی روشنی میں مسئلہ کا حل تجویزفرمائیں ،تاکہ خاتون کا شریعت پر اعتماد بھی بحال رہے، وہ ظالم شوہر سے نجات بھی حاصل کرلے ، لمبے عرصے نفسیاتی کرب سے بھی اسے گلو خلاصی مل جائے اوروہ گناہ کی طرف راغب ہونے سے بچے ، نیز کسی طولانی ضابطے کی مزید کارروائی سے بھی اسے سابقہ نہ پڑے۔

طلاق کے بعد بیوی سے ہدیہ واپس لینا

میرے بیٹے کی شادی اپنے رشتہ داروں میں  ہوئی، لیکن بعض گھریلو مسائل کی وجہ سے ناچاقی پیدا ہوگئی۔ میرے بیٹے نے بالآخر اپنی بیوی کوطلاق دے دی اور والدین نے جہیز میں جوسامان دیا تھا،اسے واپس کردیا ۔صرف لڑکی کی ساس نے جوزیورلڑکے کی طرف سے دیا گیا تھا وہ رکھوالیا ۔ ساس کا یہ کہناتھا کہ ’’سال ڈیڑھ سال میں جوکچھ اس نے خرچ کیا ہے وہ اس زیور سے کہیں زیادہ ہے ‘‘۔
قرآن پاک (سورۂ بقرۃ : ۲،۲۲۹) کا ترجمہ ہے :
’’طلاق دوبار ہے ، پھر یا تو سیدھی طرح عور ت کو روک لیا جائے ، یا بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے اوررخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جوکچھ تم انہیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی ؒ نے لکھا ہے :
’’ یعنی مہر اورزیور اور کپڑے وغیرہ ، جوشوہر اپنی بیوی کودے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسےحق نہیں ہے ۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ، جسے وہ دوسرے شخص کوہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو،واپس مانگے۔اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے ، جواپنی ہی قے کوخود چاٹ لے ، مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کےلیے تویہ بہت ہی شرم ناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رُخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوالینا چاہے جواس نے اسے کبھی خود دیا تھا ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کوطلاق دے ، اُسے رُخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کرے ‘‘۔
(تفہیم القرآن، جلداوّل ، ص ۱۷۵)
حدیث کے مطابق یہ بڑی سخت وعید ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ حدیث میں جوبیان کیا گیا ہے اس کے مطابق لڑکی کو وہ زیورات جوساس نے رکھوالیے تھے واپس دے دینا چاہئیں یا نہیں ؟ میرا خیال ہے کہ زیورات کی قیمت سنار سے لگوالی جائے اوریہ رقم ایک مشت یا ۱۰ ہزار ماہانہ کے حساب سے لڑکی کو دے دی جائے ۔ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ رقم واپس کرنا کچھ مہنگا سودا نہیں ہے ۔
قرآن وسنت کی روشنی میں رہ نمائی فرمادیجئے۔

طلاق بہ طور ہتھیار

شوہر بیوی کے درمیان ناخوش گواری کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ شوہر بات بات پر گالم گلوچ کرتا ہے اور بیوی کو زبان سے اذیت پہنچاتا ہے۔ وہ بات بات پر کہتا ہے کہ میں تجھ کو طلاق دے دوں گا۔ کیابار بار طلاق کا لفظ دہرانے سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟

کیا طویل عرصہ تک شوہر سے علٰیحدہ رہنے سے طلاق ہوجائےگی؟

ایک عورت شوہر سے روٹھ کر بیرونِ ملک چلی گئی۔ دس سال تک ان کے درمیان فون پر لڑائی چلتی رہی ۔ عورت کا اپنے شوہر سے اصرار تھا کہ دوسری بیوی کوطلاق دو۔ ایک موقع پر میاں بیوی دونوں ایک شہر میں تھے۔ بچوں نے انہیں ملوانے کی کوشش کی ، مگر بیوی تیار نہ ہوئی ۔ اس نے بچوں کوبرا بھلا کہا اور شوہر کو گالیاں دیں ۔
اس صورتِ حال میں کیا میاں بیوی کے درمیان طلاق ہوگئی، یا ابھی کچھ گنجائش ہے؟

بیٹے کے مال میں سے باپ کاخرچ کرنا

ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوا۔ وارثوں میں وہ خود اور ان کا ایک بیٹا تھا، جوابھی نابالغ ہے ۔ انہوں نے اپنا حصہ بھی بیٹے کو دے دیا۔ مجموعی رقم تیس لاکھ روپے تھی۔ اس سے ایک فلیٹ خریدا گیا، جس سے ماہانہ کرایہ پچیس ہزار روپے حاصل ہورہے ہیں ۔ اس رقم کو بیٹے کی ضروریات پر خرچ کیاجارہاہے۔
کیا اس رقم میں سے کچھ وہ صاحب اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرسکتے ہیں ؟ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک نوجوان سے مخاطب ہوکر فرمایا : ’’تواور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘کیااس سے بیٹے کے مال میں سے باپ کے لیے خرچ کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔

سوتیلے باپ کی ولدیت

ایک عورت کے شوہر کاانتقال ہوگیا۔ اس سے اس کو ایک لڑکی ہوئی۔ اس عورت نے بعد میں دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔ اس لڑکی کا اسکول میں نام لکھوانا ہے۔ کیا اس لڑکی کی ولدیت میں عورت اپنے موجودہ شوہر کا نام لکھواسکتی ہے؟

زنا بالجبر کا شکار خاتون کے مسائل

اسلام میں زنا بالجبر سے متاثرہ خاتون کی کیا حیثیت ہے؟ سماجی اعتبار سے اس عورت کا کیا مقام ہے ؟ کیا ایسی عورت شادی شدہ ہوتو اس کوحمل موجود ہونے یا نہ ہونے کا تیقن ملنے تک اپنے شوہر سے جنسی تعلق سے اعراض کرنا ہوگا؟ اگر ایسی عورت غیر شادی شدہ ہو تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اگر ایسی عورت کوحمل ٹھہر جائے تو کیا اس کا اسقاط جائز ہوگا؟ اگر ایسی اولاد پیدا ہوجائے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری کس کی ہوگی؟

تحدیدنسل کی حرمت پر بعض اشکالات

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا ہے ۔(الانعام: ۱۵۱) اس آیت سے یہ بات تو واضـح ہے کہ زندہ اولاد کا قتل حرام ہے ، جیسے عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج اسقاطِ حمل کے طریقے کو بھی اس آیت کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے ، لیکن جب آگے بڑھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کا آپریشن کراکے توالد وتناسل بند کردینا بھی حرام ہے تویہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اس فعل کے حرام ہونے کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ۔
عزل کی متبادل صورتیں ، جوآج کل رائج ہیں اور جن سے دو بچوں کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے ، اہلِ علم ان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اوراسے مطلقاً جائز مانتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص ان صورتوں کواختیار کرکے اس فاصلہ کوکتنی ہی مدت تک دراز کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ اپنی بیوی کی موت تک، توپھر اس کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپریشن کرواکے عورت کو ما ں بننے کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے۔ قتل اولاد کی ممانعت کا اطلاق حاملہ عورت کے جنین پر توہوسکتا ہے ، لیکن اس نطفے پر کیسے ہوسکتا ہے جس سے ابھی حمل کا استقرار ہی نہیں ہوا ہے ۔ وجود کے بغیر قتل اولاد کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟
دوسری دلیل اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآ ن نے اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے کوشیطان کا فعل قرار دیا ہے ۔ (النساء: ۱۱۹) مولانا مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں اس فعل کوحرام قرار دیا ہے ۔ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ نساء ، حاشیہ : ۱۴۸)اس سے اگر انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی کومراد لیا جائے توپھر اس زمرے میں توبہت سے کام آجائیں گے ، مثلاً مصنوعی آنکھ لگوانا ، ایک شخص کا گردہ یا آنکھ دوسرے شخص کودینا، ہاتھ یا پیر کاٹنا وغیرہ ، لیکن ان کی حرمت کا کوئی بھی قابلِ ذکر فقیہ قائل نہیں ہے۔ جب انہیں گوارا کرلیا گیا(بہ ضرور ت ہی سہی )توپیدائشِ اولاد کو مستقل روکنا بھی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ اسے کیوں نہیں گوارا کیا جاسکتا۔
میں کثرتِ اولاد کا مخالف نہیں ہوں ، لیکن مسلم معاشرہ میں کثرتِ اولاد سے بہت زیادہ پیچیدگیا ں پیدا ہورہی ہیں ۔جہالت کی وجہ سے انتہائی غریب مسلمان ہرسال بچہ پیدا کرکے عورتوں کوتختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں ،جس کا اثر نہ صرف ان کی صحت پر ، بلکہ بچوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے ، معاشی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں ،و ہ الگ ہیں ۔ اس مسئلہ کوصرف یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اللہ رازق ہے ۔ توکل علی اللہ کی یہ عجیب وغریب مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ آمدنی کوبڑھانے کے لیے توکوئی جدوجہد نہیں کی جاتی، بس اتنا کہہ کر خود کومتوکل باور کرلیاجاتا ہے ۔ اولاد کی تعلیم وتربیت سے مجرمانہ غفلت اس پر مستزاد ہے ۔ پھر جیسے ہی ان کی عمر دس بارہ برس کی ہوجاتی ہےانہیں محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ صورتِ حال ہوسکتا ہے ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں نہ ہو ، لیکن دیہاتوں اورچھوٹے شہروں کی پس ماندہ بستیوں میں عام ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مانع حمل ذرائع استعمال کرکے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، یا پھر حرمت سے واقفیت کے علی الرغم عورتوں کا آپریشن کرواکے اولاد کا سلسلہ بند کردیتا ہے ۔
موجودہ دور کا یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے ۔ آں جناب سے امید ہے کہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔

کیا حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط کی اجازت ہے؟

حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں چوں کہ بچے میں جان نہیں پڑتی ، اس لیے کیا اس مدت میں حمل کو ضائع کروانا کوئی گناہ نہیں ہے؟اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے۔ بہت سی خواتین اس مدت میں اسقاط کر وانے کو گناہ نہیں سمجھتی ہیں ۔