رفاہِ عامہ کے کاموں میں زکاۃ کا خرچ کرنا

کیا زکاۃ کو رفاہِ عامہ کے کاموں مثلاً مسجدوں ،ہسپتالوں ،سڑکوں ،پلوں ،کنوئوں اور تالابوں وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کیا جاسکتا ہے، جس سے ہر آدمی بلا لحاظ مذہب وملت فائدہ اُٹھا سکے؟

زکاۃ سے گزارہ الائونس دینا

کیا زکاۃ کی رقم میں سے مستحق غریبوں ، مسکینوں ،بیوائوں اور ان لوگوں کو جو اپاہج یا ضعیف ہونے کی وجہ سے روزی کمانے سے معذور ہوں ،عمر بھر کی پنشن کے طور پر گزارا الائونس دیا جاسکتا ہے؟

اداروں کو زکاۃ دینا

کیا زکاۃ صرف افراد کو دی جاسکتی ہے یا اداروں (مثلاً تعلیمی اداروں ، یتیم خانوں اور محتاج خانوں وغیرہ) کو بھی دی جاسکتی ہے؟

سیّدوں اور بنو ہاشم کو زکاۃدینا

مستحقین زکاۃ کے ہر طبقے میں کسی فرد کو کن حالات میں زکاۃ لینے کا حق پہنچتا ہے؟پاکستان کے مختلف حصوں میں جو حالات پائے جاتے ہیں ،ان کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کی جائے کہ سیّدوں اور بنی ہاشم سے تعلق رکھنے والے دوسرے افراد کو زکاۃ لینے کا کہاں تک حق پہنچتا ہے؟

زکاۃ کس علاقے میں خرچ کی جائے؟

کیا یہ ضروری ہے کہ زکاۃ جس علاقے سے وصول کی جائے،اُسی علاقے میں خرچ کی جائے یا اُس علاقے سے باہر یا پاکستان سے باہر تالیف قلوب کے لیے یا آفات ارضی وسماوی مثلاً زلزلہ یا سیلاب وغیرہ کے مصیبت زدگان کی امداد پر بھی خرچ کی جاسکتی ہے؟اس سلسلے میں آپ کے نزدیک علاقے کی کیا تعریف ہوگی؟

زکاۃ کا کسی ایک یا چند مصارف میں خرچ کرنا

کیا یہ لازمی ہے کہ زکاۃ کی رقم کا ایک حصہ ان مصارف میں سے ہر ایک مصرف پر خرچ کرنے کے لیے الگ رکھا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یا زکاۃ کی پوری رقم قرآن مجید میں بتائے ہوئے تمام مصارف پر خرچ کرنے کے بجاے ان میں سے کسی ایک یا چند مصارف میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔

زکاۃ کے لیے مہینہ کا تقرر

زکاۃ قمری سال کے حساب سے واجب ہونی چاہیے یا شمسی سال کے حساب سے؟ کیا زکاۃ کی تشخیص اور وصولی کے لیے کوئی مہینہ مقرر ہونا چاہیے؟

زکاۃ کی شرح میں تبدیلی

زکاۃ سے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضوراکرمﷺ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ڈھائی فی صد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اُسے گھٹا یا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن پاک میں زکاۃ پر جابجا گفتگوآتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکرنہیں کیا گیا، اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اُسے ضرو ربیان کیا جاتا۔ اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضورﷺ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجازنہیں ہیں ۔ رہی صاحب موصوف کی دلیل، تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں ، اور یوں نہ پڑھی جائیں ، یوں پڑھی جائیں جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔پھر تو رسول خدؐا کے احکام، احکام نہ ہوئے،کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز جو میں نے کہی تھی،وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضروریات درپیش ہوں تو وہ حدیث اِنَّ فیِ الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ({ FR 2048 }) کی رو سے مزید رقوم وصول کرسکتی ہے۔خود یہی حدیث زکاۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارتاً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکاۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟لیکن وہ صاحب اپنے مؤقف کی صداقت پر مصر ہیں ۔براہِ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرمادیجیے۔