اللّٰہ کے رازق ہونے کا مطلب

میں آپ سے قرآن مجید کی درجِ ذیل آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا چاہتا ہوں :
وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّہَا وَمُسْـتَوْدَعَہَا (ہود۱۱ :۶)
’’زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللّٰہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے۔‘‘
مجھے جو بات کھٹک رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب رزق کا ذمہ دار اللّٰہ ہے تو بنگال کے قحط میں جو تیس ہزار آدمی۱۹۴۳ء-۱۹۴۴ء میں مر گئے تھے، ان کی موت کا کون ذمہ دار تھا؟

اللّٰہ تعالیٰ کی قُدرت صناعی (پھلوں کے ذائقے میں فرق کی وجہ)

مجھے علم نباتات میں کوئی مہارت نہیں ، تاہم تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے چند سوالات پیدا ہوئے ہیں جنھیں اطمینان حاصل کرنے کے لیے پیش کرتا ہوں :
ترجمان القرآن،جنوری، فروری ۱۹۵۱ءصفحہ۱۴۳ پر یہ حاشیہ درج ہے کہ
’’ایک ہی درخت ہے اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل،جسامت اور مزے میں مختلف ہے۔‘‘اور’’ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن کے پھل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔‘‘
’’مزے میں مختلف‘‘ ہونے کی یہ راے جو آپ نے لکھی ہے،یہ مشاہدے کی بِنا پر ہے یا کتابی علم کی بِنا پر؟اگر واقعہ یہی ہے تو بہتر تھا کہ چند ایک درختوں کی مثالیں بھی دی جاتیں ۔میرا تو خیال یہ ہے کہ ایک ہی درخت کے پھل کے مزے میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا،البتہ درخت کے جس حصے کو سورج کی روشنی وافر ملتی ہے اس حصے کے پھل پہلے پختہ ہو جاتے ہیں ۔ پھلوں کی شکلوں اور جسامت میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر مزے میں فرق ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔

صفاتِ الٰہی میں تناقُض ہے یا مُطابَقت

آپ نے تفہیمات حصہ اوّل کے مضمون ’’کو تاہ نظری‘‘ میں کسی مستفسر کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’اللّٰہ رحم و کرم اور رأفت و شفقت کا منبع ہونے کے باوجود چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے؟‘‘ خدائی نظام میں وقوع پذیر ہونے والے ’’شرور‘‘ کی عقلی توجیہ کے لیے مندرجہ ذیل مفروضات کا سہارا لیا ہے:
(۱) خدا کے پیش نظر پوری کائنات کا اجتماعی مفاد ہے جسے آپ خیرِ کل سے تعبیر کرتے ہیں ۔
(۲) خیرِ کل کا حصول کسی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے اور چوں کہ اللّٰہ حکیم و دانا ہے لہٰذا اس نے ضرور اس مقصد کے لیے کسی ایسے نظام ہی کو منتخب کیا ہوگا جو اپنی کارکردگی اور افادیت کے لحاظ سے سب سے زیادہ بہتر ہو۔
(۳)اگر موجودہ نظام سے زیادہ بہتر کوئی ایسا نظام ہوتا، جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہوسکتا تو یقینا اللّٰہ اس بہتر نظام کو منتخب کرتا۔
آپ نے اللّٰہ کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جب ہماری خواہشات کا علم رکھنے کے باوجود اس نے ان کو پوراکرنے سے انکار کیا تو ہم کو سمجھنا چاہیے کہ ایسا کرنا یقینا ناگزیر ہوگا اور اس علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا کیوں کہ وہ حکیم ہے اور حکیم کے حق میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اگر بہتر تدبیر ممکن ہو تو اسے چھوڑ کر بدتر صورت اختیار کرے گا۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کا ایک جملہ ’’علیم و خبیر کے علم میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نہ ہوگی ورنہ وہ اس بہتر صورت ہی کو اختیار کرتا‘‘ نہ صرف اجتماعِ نقیضین کی ایک واضح مثال پیش کرتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی صفاتِ علیم و خبیر، حکمت و دانائی کا بھی قاری کے ذہن میں عجیب و غریب خاکہ مرتب کرتا ہے۔ اللّٰہ کو علیم و خبیر مان لینے کے بعد اس کے علم کو کسی خاص ’’صورت‘‘ یا ’’تدبیر‘‘ تک محدود کر دینا بجاے خود اس کے علیم و خبیر ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اللّٰہ واقعی کسی ایسے نظام کو نافذ کرنے پر قادر تھا جس میں ان ’’شرور‘‘ کے وقوع کے بغیر خیر کلی کا حصول ممکن ہوتا، تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اللّٰہ کم از کم حکیم و دانا نہیں ہے کیونکہ کسی ایسے نظام کے نافذ کر سکنے کے باوجود نافذ نہ کرنا آپ کے نزدیک حکمت و دانائی کے فقدان پر دلالت کرتا ہے اور اگر اللّٰہ کی حکمت و دانائی میں کسی قسم کا شک کرنا کفر قرار پائے اور یہی سمجھا جائے کہ اللّٰہ کی حکمت و دانائی ہر قسم کے شکوک سے بالاتر ہے تو پھر یہی ایک نتیجہ نکالنا ہوگا کہ اللّٰہ کسی ایسے نظام (جس میں ان شرور کے وقوع کے بغیر خیرِ کلی کا حصول ممکن ہو) کو نافذ کرنے پر نہ پہلے کبھی قادر تھا، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
امید ہے کہ آپ میری اس اُلجھن کو دور فرمانے کی سعی فرمائیں گے اور کوئی ایسا تسلی بخش جواب عطا فرمائیں گے جس سے کم از کم میرے لیے یہ فیصلہ کرنا سہل ہو جائے کہ آیا اللّٰہ حکیم و دانا ہے، یا قادرِ مطلق، یا یہ کہ اللّٰہ بیک وقت حکیم و دانا بھی ہے اور قادرِ مطلق بھی۔

اللّٰہ تعالیٰ کی صفتِ علم اور لَعَلَّ کا استعمال

آیت: وَيَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ( ابراہیم۱۴ : ۲۵)
’’ یہ مثالیں اللّٰہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں ۔‘‘
میں لفظ لَعَلَّ آیا ہے جو شک کا کلمہ ہے، حالاں کہ اللّٰہ تعالیٰ کوہر چیز کا قطعی علم ہے۔ پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟

اللّٰہ تعالیٰ کہاں سے آیا؟

:کچھ عرصہ ہوا، ایک دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی۔سوال یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟اوراگر ہے تو وہ کہاں سے آیا؟ہم دونوں اس معاملے میں علم نہیں رکھتے تھے،لیکن پھر بھی میں سوال کے پہلے جز کی حد تک اپنے مخاطب کو مطمئن کرنے میں کام یاب ہوگیا،لیکن دوسرے جز کا کوئی جواب مجھ سے بن نہیں آیا۔ چنانچہ اب یہ سوال خود مجھے پریشان کررہا ہے؟
ایک موقع پر میری نظر سے یہ بات گزری ہے کہ نبی ﷺسے بھی یہ سوال کیا گیا تھا،اور آپ ؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ باتیں انسان کے سوچنے اور سمجھنے سے باہر ہوتی ہیں ،اور یہ سوال بھی انھی میں شامل ہے۔میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ آں حضورؐ کے اس فرمودہ سے اطمینا ن حاصل کروں ،لیکن کام یابی نہیں ہوتی۔ براہ کرم آپ میری مدد فرمائیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟

ذیل کا سوال میرے ایک عزیز دوست کے ذہن میں عرصے سے کھٹک رہا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن صحیح جواب نہ دے سکا۔ امید ہے کہ جواب دے کر ممنون فرمائیں گے۔
’’اللّٰہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟ جب کہ ہر موجود کے لیے عقلاً کسی موجد کا ہونا نہایت ضروری ہے۔‘‘

امّتِ محمدیہ کا مشن

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ قوموں کے اختلافات میں صحیح بات کی طرف رہ نمائی فرمائیں ۔کیا آپ کے ساتھ یہ مشن ختم ہوگیا یا آپ کے بعد اب یہ آپ کی امّت کی ذمے داری ہے؟

اہلِ کتاب اور شِبہ اہلِ کتاب

:کیا ہندوستان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اللہ کے پیغمبر اللہ کی کتابوں کے ساتھ آئے ہوں گے، اس لیے انہیں اہلِ کتاب کی حیثیت دی جائے ؟