سوال:
میرے ذہن میں دوقسم کے انسانوں کا خیال آتاہے۔ خیال یوں ہی نہیں آتابلکہ واقعات کو دیکھ کرآتاہے۔ایک شخص باجماعت نماز اداکرتاہے، روزے رکھتاہے اور بظاہر شرعی حدود میں رہتاہے لیکن آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ یتیم کے مال پر خود غرضی سے ہاتھ ڈالتاہے، ایک بے کس بیوہ کو لوٹتاہے، ستاتاہے، اس کو نیک عورتوں پر تہمت لگانے میں خداکاخوف نہیں آتا، بآسانی جھوٹ بولتاہے دلآزاری جیسے دل ہلادینے والے گناہ(افسوس کہ جسے آج کل ہم نے معمولی بات سمجھ رکھاہے)کا ارتکاب کرتاہے۔ اس کے برعکس میں سچ کہتاہوں کہ میں نے وہ لوگ اور ان کے اعمال اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جو بت پوجتے ہیں لیکن پڑوسی کا حق اداکرتے ہیں ، مظلوم کی مددکرتے ہیں ، بیوہ اوریتیم کے لیے بچھ بچھ جاتے ہیں ، مہمان نوازی ان کا شعار ہے ،فقیر کو جھڑکتے نہیں ، ہمسایہ عورت پر نظربدڈالنا ان کے نزدیک بدترین گناہ ہے۔
ان حالات کو دیکھ کر میری ناچیز عقل نے یہی نتیجہ نکالا کہ موجودہ ماحول میں اچھے اور برے کو پرکھنے کا معیار نماز وغیرہ نہیں ، بلکہ وہ برتائو ہے، جو ایک انسان خلق اللہ کے ساتھ کرتاہے۔ اب براہِ کرم مجھے بتائیے کہ میراخیال کہاں تک درست ہے؟اگریہ نتیجہ میں نے غلط نکالاہے توپھر صحیح کیاہے؟میرا مقصد معاذ اللہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ نماز کی کچھ وقعت نہیں ہے یا وہ ایک بے معنیٰ چیز ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک طرف تومیں ’ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ ‘۔کی اٹل حقیقت کو دیکھتاہو اور دوسری طرف یہ باتیں تومیرادماغ الجھ کررہ جاتاہے بالآخر یہی نتیجہ نکالتاہوں کہ وہ نماز ہی نہیں ہے جو اس شرط کو کم از کم ایک بڑی حدتک پورانہ کرے۔ اس کے علاوہ جب شرک وکفر کے سیاہ بادلوں میں سے اس عالی مقامؐ کے اخلاقِ عالیہ کے روشن آفتاب کی ایک شعاع دکھائی دیتی ہے تواور بھی حیرت ہوتی ہے۔ لامحالہ میری نظر اس شعاع پر پڑتی ہے۔ نہ کہ ان رکوع وسجود پر جبس رکوع وسجود ہی ہیں ۔
جواب
جواب:
درحقیقت اس بحث میں پڑنے سے پہلے ا سبات کے جاننے کی ضرورت ہے کہ نیکی کیاہے اور بدی کیا۔
نیکی نام ہے حق شناسی، حقوق کی ادائیگی اور فرائض کی انجام دہی کا اور بدی نام ہے حق تلفی اور فرض ناشناسی کا ۔اللہ اس کا ئنات کا واحد خالق و مالک ہے۔ انسان کی زندگی اسی کی بخشی ہوئی ہے، وہی ہے جس کی رحمتوں اور نعمتوں سے وہ ہرآن فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے اور جو کچھ وہ حاصل کرسکتاہے، وہ خداہی کے پاس سے ملتاہے اور مل سکتاہے۔ اس حقیقت پر اگر آپ غور کریں گے توخود بخود اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ انسان پر سب سے بڑا اور حقیقی حق اس کے خالق ومالک اللہ تعالی کاہے۔انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بن کررہے۔ تمام معاملات میں بے چوں وچراسی کی اطاعت کرے، ہر وہ کام انجام دے جو اس کی خوشنودی کا باعث ہو اور اس طرح انجام دے کہ وہ خوش ہو۔ دنیا کے ہر کام میں ہر دم اس کی رضاجوئی کو ملحوظ رکھے اور اپنی زندگی کا مقصود اس ہستی کی رضاکوبنائے جو اس کا پیداکرنے والا، پالنے والا، اس پر بے حد مہربان اوراس کا حقیقی محسن ہے۔ اسی کانام نیکی ہے اور جو شخص خداکے ان حقوق کو ادانہیں کرتاوہی بد ہے اوراس کی زندگی سرتاسربدی ہے۔ کسی ملک میں رہتے ہوئے اس کے جائز اور حقیقی فرماں رواں سے بغاوت کرنا جب کہ وہ محسن ومربہ بھی ہو دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے، جس کے ہوتے ہوئے کسی خوبی کا کوئی وزن نہیں ۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو خداکی مخلوق ہوتے ہوئے پیدائشی طورپر اس کے غلام ہونے کے باوجود اس کے ملک میں رہنے اوراس کی بخشی ہوئی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہنے کی باوجود اس سے بغاوت کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ دنیا کے بدترین انسان ہیں اوران کی نیکیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں ۔
نیکی کے سلسلے میں عام طورپر ذہن الجھے ہوئے ہیں ۔ ایک کام جو دیکھنے میں اچھامعلوم ہوتاہے لوگ اچھاکہہ دیاکرتے ہیں ۔ کچھ لوگ صرف ذہنیت کا اعتبار کرتے ہیں لیکن یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ۔نیکی صرف وہ کام ہے جو خود بھی اچھاہو اور جس کے کرنے والے کی نیت بھی اچھی ہو۔ اس لحاظ سے اگر آپ غور کریں تومعلوم ہوگا کہ جو شخص اللہ کی صفات پر ٹھیک ٹھیک یقین نہیں رکھتاہے اور آخرت ہی کے اجر کو حقیقی اجر نہیں سمجھتا اس سے کسی حقیقی نیکی کا صدور نہیں ہوسکتا!اس کے لیے ایک عقیدئہ لاینحل تویہی ہے کہ وہ کس کام کو نیکی سمجھے اور کس کو بدی۔ انصاف اور حسن سلوک بہت عام باتیں ہیں لیکن عملی طورپر یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی خاص معاملے میں انصاف کیاہے اور حسنِ سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ ہم پر کیاکیا حقوق واجب ہیں اوران میں تناسب وتوازن کیاہے اور کون ہمارے حسنِ سلوک کا کس قدر مستحق ہے اور کس کے ساتھ سختی کا برتائو ہی صحیح ہے۔ یہ سب باتیں ٹھیک طورپر خداکے قانون ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں اور جو شخص خداکے قانون کو نہیں مانتا اور اس پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا وہ چاہنے کے باوجود ظلم اور حق تلفی سے نہیں بچ سکتا اور حقیقی نیکی اور راست روی کو اختیار نہیں کرسکتا۔
انسان کی نیت کی درستی یہ ہے کہ وہ کسی کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کرنے کے لیے یہ شرط نہ لگائے کہ اس کے ساتھ بھی حسن سلوک اور انصاف کیاگیاہو۔ اس طرح نیکی نیکی نہیں رہتی ،تجارت ہوجاتی ہے اور انسان کچھ لوگوں کے لیے نیک ثابت ہوتاہے اور کچھ کے لیے بد۔ نیکی کے نیکی ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اس کا بدلہ دنیا میں کسی شکل میں نہ چاہے، نہ اسے دولت واقتدار درکار ہو نہ شکر گزاری چاہتاہو نہ شہرت کا متمنی ہواور نہ اس کے پیچھے اور کوئی غرض ہو، ان میں ہرچیز نیکی کی ضد ہے اور ان کے ہوتے ہوئے نیکی کا ڈھونگ توہوتاہے لیکن نیکی نہیں ہوتی۔
خدا اور آخرت پر ٹھیک ٹھیک یقین کیے بغیر یہ شرطیں پوری نہیں ہوسکتیں ۔ جس شخص کے سامنے خداکی رضاجوئی اور آخرت کا اجر نہ ہواور کامیابی اسی دنیا کی کامیابی ہو وہ نیکی اور انصاف کی راہ کیوں کر اختیار کرے گا؟ وہ اگر کسی کے ساتھ کوئی اچھا برتائو کرے گاتواس لیے کرے گا کہ اس کی طرف سے بھی حسنِ سلوک کا مظاہرہ ہواہے۔ وہ کسی سوسائٹی کے رسمی اخلاقیات کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کچھ نیکیاں کرے گا مگر جب کسی برے ماحول میں پہنچے گا تواس کی برائیاں اختیار کرنے میں اسے باک نہ ہوگا۔ وہ نیکی کرکے اس کا بدلہ چاہے گا۔ شہرت کا طلب گار ہوگا اور اپنی اغراض کو پوراکرنے کی کوشش کرے گااور جہاں اسے اس کی امید نہ ہوگی وہاں ایک بدترین انسان ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ گھنائونے مقاصد کے لیے بھی حسن سلوک کو استعمال کرسکے گا اوراس کے لیے کوئی روک نہ ہوگی۔ وہ انہیں مواقع پر نیک ثابت ہوگا جہاں اس کا یا اس کے خاندان کا یا اس کی قوم اور طبقے کا فائدہ ہوگا کیوں کہ ان سب صورتوں میں اسے بھی فائدہ پہنچتاہے۔ ایساشخص تمام انسانوں اور تمام مخلوقات کے لیے نیک منصف اوررحم دل نہیں ہوسکتا۔
جس شخص کے سامنے صرف خداکی رضاجوئی ہواور جسے آخرت کی کامیابی مطلوب ہو وہی بغیر کسی شرط اور بغیر کسی کھوٹ کے نیکی اور انصاف کی راہ اختیار کرسکتاہے اور ہر موقع پر ہر شخص کا ساتھ منصفانہ اور محسنانہ برتائو کرسکتاہے وہ خود بھوکارہ کر دوسروں کو کھلاسکتاہے ۔ وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ۔ وہ ان لوگوں کو بھی اپنے احسانات سے محروم نہیں کرتا جو اس کی عزت وآبرو کے درپے رہے تھے۔ وہ ان قیدیوں کے ساتھ بھی محبت اور حسن سلوک سے پیش آتاہے جو کل تک اس کے جانی دشمن تھے اوراسے دنیا سے مٹادینے کے لیے میدان جنگ میں آئے تھے۔ وہ ان کے ساتھ یہ سلوک اس لیے نہیں کرتا کہ ان پر احسانات کا بوجھ لادکر دشمنی کو دوستی سے بدل دے ،وہ ایساصرف اس لیے کرتاہے کہ خداخوش ہو وہ ان سے صاف صاف کہہ دیتاہے کہ ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری، اس کا یہی برتائو غریبوں اور یتیموں کے ساتھ ہوتاہے۔ وہ صرف خداکی خوشی کے لیے اور آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے ان کی امداد کرتاہے اور اس کا کوئی بدلہ یاشکر یہ نہیں چاہتا۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا یَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِیْراً ۔(دھر:۸-۱۰)اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت کے باوجود غریبوں ، یتیموں اور قیدیوں کو اور کہتے ہیں ہم تمہیں صرف خداکی رضا کی خاطر کھلارہے ہیں تم سے بدلہ یاشکر نہیں چاہتے ہم اپنے رب کی جانب سے ایک ایسے دن سے ڈرتے ہیں جو بہت سخت اور تلخ ہوگا۔
آپ فرمائیں گے یہ سب صحیح لیکن آج کیوں ایسانظرنہیں آتا؟یہ کیابات ہے کہ ایک مسلمان نماز پڑھنے میں جتنی سرگرمی دکھاتاہے اتنی سرگرمی بندوں کے حقوق کے اداکرنے میں اس سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ وہ کھلی ہوئی حق تلفیاں کرتاہے اور مطمئن رہتاہے۔درحقیقت اس صورتِ حال کی ساری ذمے داری دین اور عبادت کے ناقص تصوّر پر ہے۔ مسلمانوں میں یہ خیال مضبوطی کے ساتھ جم گیاہے کہ دین کا تعلق بس چند خاص معاملات سے ہے اور عبادت بس یہی ہے کہ نماز روزہ وغیرہ کو اداکردیاجائے۔ مذہب اور عبادت کا یہ تصور دنیا میں بہت عام ہے ،جس کو غلطی سے مسلمانوں نے اپنالیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ان کی دین داری وعبادت گزاری نماز روزے تک محدودہوکر رہ گئی ہے اور جب تک دین اور عبادت کا وسیع مفہوم ان کے ذہن نشین نہ کیاجائے گا ان کی اصلاح ناممکن ہے۔ ان پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح کردینی چاہیے کہ دین کا تعلق پوری زندگی سے ہے اور عبادت کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت و غلامی اختیار کرے۔ اللہ کے دین نے جس طرح یہ بتایاہے کہ انسان پر اللہ کے حقوق کیاہے اوراس کی پرستش کس طرح کی جائے یہ بھی بتایاہے کہ انسان پر بندوں کے حقوق کیاہیں اوردنیا کے انسانوں سے اسے کس قسم کے معاملات رکھنے چاہییں ۔ دین کے دوحصے ہیں اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق اوران میں سے کوئی حصہ کم اہم نہیں ہے، بلکہ صحیح تویہ ہے کہ بندوں کے حقوق اداکیے بغیر اللہ کے حقوق ادانہیں ہوسکتے۔قرآن پاک نے بہت صراحت کے ساتھ بندوں کے حقوق کی اہمیت واضح کی ہے اور صاف صاف بتایاہے کہ نیکی کیاہے اور نیکی کیانہیں ہے۔ اس نے ان ظاہری مراسم کو جو اپنی روح کھوچکے ہوں اور جن کے کرنے والوں کی زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی سے خالی ہو ،نیکی ماننے سے انکار کردیاہے۔ اس نے نیک صرف اس شخص کو ماناہے جو اللہ پر آخرت پر اس کی ہدایت پر ایمان رکھتاہو، اللہ کی بندگی کے حقیقی جذبے سے سرشار ہو، اللہ کے حق اور بندوں کے حق اداکرتاہو حق پرستی پر مضبوطی سے جمارہتاہو حق کے لیے ہر طرح کی قربانیاں کرتاہو اور اللہ کی رضاکے لیے ہر طرح کے مصائب جھیلنے کے لیے تیار رہتاہو۔صرف ایک آیت کا ذکر کرتاہوں : لَّیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ۔(البقرہ:۱۷۷)’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم(عبادت کے وقت)اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو ،نیکی تویہ ہے کہ انسان اللہ پر آخرت پر ملائکہ پر کتابوں اور نبیوں پر ایمان ویقین رکھے، مال کی محبت رکھتے ہوئے اس سے عزیزوں یتیموں غریبوں مسافروں مانگنے والوں کی امداد کرے اور غلاموں کی رہائی میں خرچ کرے نماز قائم کرے زکوٰۃ اداکرے۔ جب عہد کرے تواسے لازماً پوراکرے اور تنگ دستی ،مصائب اور جنگ کے وقت حق پر جمارہے۔ ایسے ہی لوگ صادق الایمان ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں ۔ اس آیت سے بندوں کے حقوق کی جو اہمیت واضح ہوتی ہے، اس کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اسی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ایمان سب سے زیادہ اہم ہے۔‘‘
إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ۔ایک واضح حقیقت ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ لیکن نماز صرف ظاہری قیام و رکوع وسجود کانام نہیں ہے۔ یہ تونماز کی شکل ہے۔ اس کی روح اللہ کی یاد اس کی کامل بندگی کا عہد ظاہروباطن سے اس کے سامنے عاجزی وسپردگی کا اظہار اور آخرت کی جواب دہی کی یاد ہے۔ یہ روح اگر موجود نہ ہو توخالی جسم کیاکرسکتاہے۔اس سے آدمی دھوکاضرور کھاسکتاہے، لیکن اس سے زندگیوں میں انقلاب نہیں ہوسکتا۔اسے آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ انسان کو اللہ نے کتنی عجیب وغریب قوتیں دی ہیں ،لیکن روح نکل جانے کے بعد وہ لاشے محض ہوکر رہ جاتاہے۔ رسمی نماز، بے سوچی سمجھی نماز، انسانی زندگی سے غیر متعلق نماز نہ اپنے اندر نماز کا حقیقی جوہر رکھتی ہے اور نہ اس سے انسان انسان بن سکتاہے۔ لیکن جو نماز حقیقی روح سے لبریز ہو اور قرآن وحدیث کی تصریحات کے مطابق ہو وہ انسانی زندگی میں صالح انقلاب برپاکرنے کے لیے اکسیر نسخہ ہے۔ جس سے بہتر کوئی نسخہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا