حضرت مسیح ؈ کی بن باپ کے پیدائش

لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ان کا طریق استدلال یہ ہے کہ جب فرشتے نے حضرت مریم ؉ کو خوش خبری سنائی کہ ایک پاکیزہ لڑکا تیرے بطن سے پیدا ہو گا، تو انھوں نے جواب دیا کہ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور نہ میں بدکار ہوں ۔ جب یہ فرشتہ نازل ہوا اس وقت اگر حضرت مریمؑ کو کنواری مان لیا جائے اور بعد میں یوسف نجار سے ان کی شادی ہوگئی ہو اور اس کے بعدحضرت مسیح ؈کی پیدائش ہو تو کیا خدائی وعدہ سچا ثابت نہیں ہوگا؟
ان کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ خدا اپنی سنت نہیں بدلتا اور اس کے لیے وہ قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں :
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا (الفتح:۲۳) ’’اور تم اللّٰہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ لڑکے کی پیدائش ایک عورت اور ایک مرد کے ملاپ کا نتیجہ ہے ۔کیوں کہ ازل سے یہ سنت اﷲہے اور یہ اب تک قائم ہے۔
براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک درست ہے۔اگر وقت کی کمی کے باعث طویل جواب لکھنا آپ مناسب نہ سمجھیں تو کتابوں کا حوالہ ہی ہمارے لیے کافی ہوگا۔

بنی اسرائیل کا مسلمان ہونا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ مزید لکھتے ہیں :’’ دوسرا جز یہ ہے کہ جتھا ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان بوجھ کر اور سمجھ کر قبول کریں ،جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اﷲ کے لیے خالص کردیں ۔‘‘ کیا سب بنی اسرائیل ایسے ہی تھے ؟کیا ان کے اعمال سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے؟ کیا فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ان میں سے کسی نے بھی دین ِ موسوی قبول کرنے سے انکار نہیں کیا تھا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟حالاں کہ کسی سعی اورکش مکش کا پتا قرآن پاک سے نہیں چلتا جس کی بنا پر بنی اسرائیل کے لکھو کھا آدمی تمام کے تمام مشرکانہ طاقتوں کے زیر دست رہنے کے باوجود ایک دم ایمان لے آئے ہوں ۔جو برتائو یہودیوں نے حضرت مسیح ؈ کے ساتھ کیا،وہی برتائو حضرت موسٰیـ کے ساتھ اس زمانے کے کچھ بنی اسرائیل حکومت کی طاقت کو حرکت میں لا کر کرسکتے تھے اور اگر اُن میں کچھ کافر تھے تو وہ فرعون کے ساتھ غرق ہوئے یا نہیں ؟

حضرت آدم ؈ کی تخلیق اور تربیت

قرآن مجید نے حضرت آدم ؈ کا ذکر جس انداز سے کیا ہے،وہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔اس سلسلے میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے ناآشنا ہیں ۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سواے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلۂ ارتقا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟

حضرت حوا کی پیدائش

حضرت حوا کی پیدائش کے متعلق تفہیم القرآن جلد۱، صفحہ۳۱۹ میں جناب نے تصریح کی ہے کہ آدم ؈ کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ حدیث بخاری خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ کا کیا جواب ہوگا؟

تفہیم القرآن جلد۱، سورۂ النساء، حاشیہ نمبر۱کے تحت آپ نے لکھا ہے کہ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کے بارے میں عام طور پر جو بات اہلِ تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائبل میں بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمؑ کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا۔ لیکن کتاب اللّٰہ اس بارے میں خاموش ہے۔ اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھا ہے۔‘‘ اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ حدیث جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے یہ تو بخاری و مسلم کی ہے۔

طوفانِ نوح کی عمومیت

آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طوفانِ نوح عام نہیں تھا۔لیکن ظاہری قرائن اس بات کے خلاف ہیں ۔ اوّل کشتی کس لیے بنائی گئی تھی؟کیوں نہ حضرت نوح ؈ کو ہجرت کرنے کا حکم دیاگیا؟دوم کشتی میں حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا لینا بھی اس بات کا مؤید ہے کہ طوفان نہایت عام تھا۔حضرت نوح ؈ کی بددُعا میں بھی اس عمومیت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا ( نوح:۲۶)

حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار لوگ

ثانیاً آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی موجودہ انسانی نسل ان سب لوگوں کی ہے جو کہ حضرت نوح ؈ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔آپ نے ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ (بنی اسرائیل:۳ ) سے اس کی دلیل اخذ کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ،کیوں کہ نوح ؈ کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ سے مراد حضرت نوح؈ کے بیٹے ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔دوسری جگہ اس کی تفسیر خود قرآن کے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ وَجَعَلْنَا ذَرِیَّتَہٗ ھُمْ الْبٰقِیْن (الصافات:۷۷) کتنے کامل حصر کے الفا ظ ہیں !

حضرت ابراہیم ؈ کا دَورِ تفکُّر

آپ نے تفہیم القرآن میں سورۂ الانعام کے رکوع ۹سے تعلق رکھنے والے ایک توضیحی نوٹ میں لکھا ہے کہ:
’’وہ (حضرت ابراہیم ؑ) ھٰذَا رَبِّیْ کہنے سے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے، کیوں کہ ایک طالب ِحق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لیے ٹھیرتا ہے،اصل اعتبار ان کا نہیں بلکہ اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اگر نبوت وہبی ہوتی توحضرت ابراہیمؑ کو عام انسانوں کی طرح خدا کے الٰہ ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے میں شک اور تحقیق کی ضرورت نہ ہوتی۔اگر انھوں نے عام انسانوں کی طرح دماغی کاوشوں اور منطق وفلسفہ ہی سے اﷲ کی الوہیت کو پایا تو نبوت ایک کسبی معاملہ ہوا اور ایک فلاسفر اور نبی کے حصولِ علم میں کوئی فرق نہ ہوا۔

تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۵۲، سورۂ الانعام آیت۷۴ کا تفسیری نوٹ نمبر۵۰ یہ ہے:
’’یہاں حضرت ابراہیم ؈ کے واقعے کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جارہا ہے کہ جس طرح اللّٰہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خدائوں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے، اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم علیہ السلام بھی کرچکے ہیں ۔‘‘
اس اقتباس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سلسلۂ کلام، وحی سے نوازے جانے کے بعد دعوت اور محاجّۂ قوم سے متعلق ہے۔ نبوت سے پہلے کے دورِ تفکّر کا بیان مقصود نہیں ہے جیسا کہ ’’اللّٰہ کی بخشی ہوئی ہدایت‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں ۔ پھر آیت میں دعوتِ ابراہیمی کا ذکر ہے جو ظاہر ہے نبوت کے بعد دی گئی ہے، کوئی قرینہ دورِ تفکر کا موجود نہیں ہے۔ اور پھر آیت ۷۵ کے نوٹ نمبر۵۲ کے آخر کے جملے بتاتے ہیں کہ نبوت کے بعد تبلیغ کا حال بیان ہو رہا ہے، یعنی ’’حضرت ابراہیمؑ توحید کی جو دعوت لے کر اٹھے تھے‘‘ والا جملہ۔ پھر آپ نے نبی ﷺ کی معراج کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں کئی جگہ فرمایا ہے کہ اسی طرح دوسرے انبیا کو بھی نظامِ کائنات کا مشاہدہ کرایا گیا اور ثبوت میں حضرت ابراہیمؑ کی معراج کے لیے یہی آیت نمبر۷۵ پیش کی ہے اور معلوم ہے کہ معراج نبوت کے بعد ہوتی ہے، نبوت سے پہلے نظامِ کائنات کا مشاہدہ کرانے کے لیے ’’خدائی انتظام‘‘ نہیں ہوسکتا۔ اب اس کے بعد آتی ہے آیت۷۶ جو ’’ف‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ اسے بھی آپ نے دَورِ تفکر سے متعلق قرار دیا ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ یہ آیت دَور تفکُّر سے متعلق کس طرح ہوسکتی ہے مگر سمجھ میں نہ آیا۔ براہِ کرم اس خلجان کو دُور فرمائیں ۔ نیز وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ({ FR 1655 }) (الانعام:۷۵) جملۂ معلَّلہ ہے جس پر ’’واو‘‘ آیا ہے۔ لازم ہے کہ اس کا معطوف علیہ بھی جملۂ معلّلہ ہو، اور آپ نے جو ترجمہ فرمایا ہے اس سے بات کسی دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کذٰلک میں ذٰلک کا مشارٌ الیہ کیا ہے؟ لازم ہے کہ اُوپر اس کا ذکر آچکا ہو۔

حضرت ابراہیم ؈ کا ختنہ

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا ختنہ اسّی برس کی عمر میں ہوا تھا۔
مہربانی کرکے اس حدیث سے ذہن میں جو شبہات اٹھتے ہیں ، ان کو رفع کیجیے۔