حضرت ابراہیم ؈ کی طرف کذباتِ ثلاثہ کی نسبت

بخاری میں حضرت ابراہیم ؈ (جنھیں قرآن نے صدیق نبی کا خطاب دیا ہے) کے تین جھوٹ کا ذکر ہے اور یہ تین جھوٹ بھی اس شدید نوعیت کے کہ ان کی وجہ سے وہ قیامت کے دن شفاعت کرنے سے شرمندہ ہوں گے۔ ان میں سے دو واقعات کا ذکر تو قرآن نے بھی کیا ہے۔لیکن تیسرا واقعہ، یعنی حضرت ابراہیم ؈ کا ایک زانی بادشاہ کے خوف سے اپنی بیوی کو بہن ظاہر کرنا، تو قرآن میں کہیں مذکور نہیں ۔

حضرت ابراہیم ؈ کا واقعۂ ہجرت جب کہ ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی اور ایک ظالم بادشاہ نے بدفعلی کا ارادہ کیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس ظالم کو اپنی قدرت قاہرہ کے ساتھ اس ارادے سے باز رکھا۔آپ نے یہاں بھی اختلاف کیا ہے اور اس واقعے کو لغو قرار دیا ہے۔
آپ اس پر نظر ثانی فرمائیں یا اپنے خیالات سے رجوع فرمائیں یا مسکت دلائل تحریر فرمائیں ۔آپ کے مخالفین،خدا انھیں ہدایت دے،ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

قرآن کریم میں حضرت اسحاق و حضرت اسماعیل ؉ کا ذکر

سورۂ العنکبوت آیت۲۷ میں یوں ارشاد ہوتا ہے:
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْكِتٰبَ …
’’اور دیا ہم نے ابراہیم کواسحاق و یعقوب اور رکھی اس کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب۔‘‘
یہاں حضرت اسماعیلؑ کو بالکل چھوڑ دیا۔ حالاں کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکے سب سے بڑے صاحب زادے تھے اس لیے سب سے پہلے ان کا نام نامی آنا چاہیے تھا، جن کی نسل مبارک میں آگے چل کر حضور ﷺ نبوت سے سرفراز ہوئے۔

فریضۂ رسالت اور حضرت یونس ؈

تفہیم القرآن جلد۲ سورۂ یونس۔ جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’حضرت یونس ؈ سے فریضۂ رسالت کی ادائگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں ۔‘‘
کیا انبیا ؊ معصوم نہیں ہوتے؟ خصوصاً فریضۂ رسالت میں انبیا سے کوتاہی کیسے ممکن ہے۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِo لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقۃ:۴۴-۴۶)
’’اوراگر اس (نبیؐ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘
فریضۂ رسالت کی عدم کوتاہی میں تصریح نہیں ؟ اگر نبی سے فریضۂ رسالت میں بھی کوتاہی ہوسکتی ہے تو پھر دین خداوندی کا کیا بچ جاتا ہے؟کیا یہ مضمون موہم ہتک انبیا نہیں ؟

حضرت یوسف ؈ کا زلیخا کے ساتھ نکاح کرنے کی حقیقت

سورۂ یوسف کی تفسیر میں جناب نے لکھا ہے کہ زلیخا کو حضرت یوسف ؈ نے نکاح میں نہیں لیا،کیوں کہ قرآن کریم سے اس عورت کا بد چلن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کیا حضرت لوط اور حضرت نوح ؉ کی ازواج کافر نہ تھیں ؟اگر تھیں تو کفر کیا بدچلنی سے زیادہ شدید نہیں ہے؟ علاوہ بریں حضرت یوسف ؈ کے قصے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عقد نکاح کے وقت تک زلیخا مسلمان ہوچکی تھیں اور سابقہ بدچلنی سے تائب ہوگئی تھیں ۔

حضرت سلیمان ؈ کا۹۹ یا۱۰۱ بیویوں کے پاس جانا

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت سلیمان ؈ نے ارشاد فرمایا کہ آج رات میں اپنی تمام بیویوں سے،جن کی تعداد ایک سو ایک یا ننانوے تھی،مجامعت کروں گا۔ ہر ایک بیوی سے ایک شہسوار پیدا ہوگا جو خدا کی راہ میں جہاد کرے گا۔ کسی نے کہا ان شائ اﷲ بھی ساتھ کہیے لیکن حضرت سلیمان ؈ نے پروا نہ کی۔چنانچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کوئی حاملہ نہ ہوئی۔ (بخاری،ج دوم،ص۹۳) امید ہےآپ اس حدیث کی وضاحت کرکے میری پریشانی و بے اطمینانی رفع فرمائیں گے۔شکر گزار رہوں گا۔

آپ نے سورۂ ص کی تفسیر میں حضرت سلیمان ؈ کے متعلق روایت ابوہریرہؓ کی سند کو درست قرار دیا ہے مگر اس کے مضمون کو صریح عقل کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔({ FR 1578 }) آپ کے مخالفین اس چیز کو آپ کے انکارِ سنت پر بطورِ دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ آپ عقل کی آڑ لے کر صحیح احادیث کا انکار کر دیتے ہیں ۔ آپ اپنی اس راے کو بدل دیں یا پھر اس پر کوئی نقلی دلیل آپ کے پاس ہو تو تحریر فرمائیں ۔ اگر ائمۂ اسلاف میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں ۔
اگر کسی امام نے کسی حدیث کی سند کو درست تسلیم کرکے اس کے مضمون کو صرف خلافِ عقل ہونے کی بنا پر مسترد کیا ہو تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں ۔
مکرر عرض ہے کہ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان ؈ ایک رات میں نوے بیویوں کے پاس گئے تو اس سے کون سی شرعی قباحت لازم آتی ہے۔ کیا آپ بھی جدید مغرب زدہ طبقے سے مرعوب تو نہیں ہو رہے؟

حضرت سلیمان ؈ کے مردہ جسم کاعصا کے سہارے کھڑا رہنا

سورہ سبا آیت۱۴، ح۲۴، صفحہ۱۹۰۔ حضرت سلیمانؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گُھن نے عصا کو کمزور کر دیا اور جِنّوں کو (اور یقینا انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید ازقیاس ہے اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنّوں (اور دیگر عمائدِ سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمانؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت وصامت کیوں کھڑے ہیں ؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انھیں بھی انتقال کا پتا نہیں چلا (جو ناممکن ہے) یا انھی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟
مفسر محترم نے جس بات کو صاف اور صریح فرمایا ہے وہ خود ایک پہیلی ہے۔

حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کے دو اہم اجزا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں :’’پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اﷲ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کاقانون بنانے کی دعوت دی جائے،دعوت عام ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔‘‘ کیا دعوتِ توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑنے کیا، غیر متعلق چیز نہ تھی؟

حضرت آدم ؈ کے دور کا تعین

حضرت آدم ؈ تاریخ کے کس دور میں پیدا ہوئے؟اس ضمن میں مذہب جو معلومات ہمیں فراہم کرتا ہے،نفسیاتی اور ارضیاتی حقائق ان کی تائید نہیں کرتے۔کیا آدم ؈ اور حوا کا یہ قصہ ایک تمثیل اور مجازی چیزنہیں ؟