مزید تشریح 

آپ نے ’زندگی‘ جنوری ۱۹۶۷ء میں ’موزوں پرمسح‘ کے عنوان سے رسائل ومسائل میں ثابت کیاتھا کہ پتلے اورباریک موزوں پرمسح کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ نے مولانا مودودی کا جواب بھی دیاتھا اور لکھا تھا کہ اگر مولانا نے اس مسئلہ پر نظر ثانی کی تو ان کی رائے اتنی مطلق باقی نہیں رہے گی … Read more

مشرک قوموں سے جزیہ لینے کا حکم

تفہیم القرآن ج۲ص۱۸۸پریہ عبارت ہے ’’ابتداً یہ حکم (اہل کتاب سے جزیہ لینے کا) یہودونصاریٰ کے متعلق دیاگیاتھا………..اس کے بعد صحابہ کرام نے بالاتفاق بیرون عرب کی تمام قوموں پراس حکم کو عام کردیا۔‘‘ آپ کی عنایت ہوگی اگر مجھے بتائیں کہاس  جملہ کے تاریخی شواہد کیا ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ مجھے تحریری نقلی … Read more

معراج سے متعلق ایک تحریرپراعتراض

عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن میں واقعہ معراج کے بارے میں میرے ایک رشتہ دارنے اعتراض کیا ہے، آپ اس کا ازالہ کردیں تاکہ میرا ذہنی انتشاردور ہو۔ معراج کے بارے میں مولانا نے حاشیہ میں لکھا ہے ’’ یہ سب جزوی چیزیں ہیں، اس کا انکار کرنے والے کو کافر نہیں کہیں … Read more

’خلافت وملوکیت‘ میں ایک حوالہ کی غلطی

بڑودہ اورگجرات کے بعض دوسرے شہروں میں بعض افراد نے ہم لوگوں سے یہ کہا ہے کہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’خلافت وملوکیت ‘ میں حضرت معاویہؓ کی طرف یہ غلط بات منسوب کی ہے کہ وہ حضر ت علیؓ کو برابھلاکہتے اورگالیاں دیتے تھے اور انھوں نے اپنے گورنروں کو بھی اس کا حکم … Read more

حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان

’کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ یہ حدیث مجھے ’موضوع‘ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ اس لیے ایسی غیر معتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی طبعی نظافت

آپ نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ‘ (شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی نومبر ۲۰۰۹ء) میں رسول اکرم ﷺ کی خانگی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام آپؐ کی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے۔ اس لیے حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہو رہی ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

معرکۂ قسطنطنیہ میں حضرت یزید کی سربراہی؟

ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماہ نامہ زندگی نو، اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک مضمون حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی سیرت پر شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی ایک عبارت (ص: ۷۱) سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’حضرت یزید بن معاویہؓ کی سربراہی میں قسطنطنیہ کی اس مہم میں بھی انھیں شرکت کا شرف حاصل ہے، جس میں شریک رہنے والوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ البتہ زمانۂ فتنہ (جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ) میں وہ الگ تھلگ رہے اور کسی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ جنگ ِ قسطنطنیہ، جس میں یزید مذکور شریک تھا، وہ جنگ نہیں ہے جس میں شریک مسلمانوں کو جنت یا بخشش و نجات کی بشارت دی گئی ہے۔ پھر بھی اگر مضمون نگار کا خیال صحیح ہے تو بہ راہ ِ کرم دلائل سے وضاحت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ بہ راہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا یزید صحابی تھا اسی لیے مضمون میں اسے ’حضرت یزید بن معاویہؓ ‘لکھا گیا ہے؟ یعنی اللہ اس سے راضی ہوا۔ کیا زمانۂ فتنہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہی کا زمانہ تھا؟ اس کے بعد کا زمانہ نہیں تھا؟ اگر نہیں تو کیا زمانہ امن و سلامتی و ہدایت کے اعتبار سے راہِ نبوت و خلافت ِ راشدہ پر لوٹ آیا تھا؟ یعنی اموی و عباسی زمانہ زمانۂ فتنہ نہ تھا۔ اگر حضرت معاویہؓ کا دور، جس میں یزید بھی قسطنطنیہ کی جنگ میں بہ طور سربراہ شریک تھا، زمانۂ فتنہ نہ تھا اور فتنے کے زمانے سے نکل آیا تھا تو پھر اسے خلافت راشدہ کے دور سے تعبیر کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر دونوں زمانوں میں فرق تھا، جس کی وجہ سے دورِ خلافت ِ معاویہ کو خلافت ِ راشدہ کا دور نہیں قرار دیا جاتا تو وہ فرق کیا تھا؟
کیا جنگ ِ قسطنطنیہ ہی وہ پہلی بحری جنگ ہے جس کے متعلق ہمارے مقررین و مصنفین یہ فرماتے ہیں کہ پہلی بحری جنگ میں جو لوگ شریک ہوں گے اللہ نے انھیں بخش دیا۔ اس لیے ’حضرت یزید رضی اللہ عنہ‘ بھی بخشے گئے؟ کیا قسطنطنیہ میں یہی ایک جنگ ہوئی جس میں یزید بن معاویہ شریک ہوا تھا یا سربراہ تھا؟
ایک صاحب اپنی ایک مشہور ترین کتاب میں کعب احبار کو باقاعدہ ’کعب احبار ؓ ‘لکھتے ہیں ، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی صحابی تھے۔ کیا یہ صحابی تھے؟ اس لیے شناخت کے لیے ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جانا چاہیے، جیسا کہ مضمون مذکور میں یزید بن معاویہ کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی وضاحت سے نواز کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔

رسول اکرم ﷺ کی تشریعی حیثیت

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کو بہ حیثیت رسول جو ذمہ داری دی گئی تھی، وہ کتاب اللہ کی تشریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے نبی) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔ (النحل: ۴۴) اس آیت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری دی تھی کہ قرآن میں جو احکام و ہدایات دیے جا رہے ہیں ، ان کی آپؐ وضاحت اور تشریح فرما دیں ، تاکہ لوگوں کو کلام اللہ کے سمجھنے میں دشواری نہ پیش آئے۔
یہ فریضہ منصب ِرسالت کا ایک اہم جزء ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ذمہ داریاں آپؐ کے سپرد کی گئی تھیں اور سبھی معاملات میں آپؐکی اتباع کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ بلکہ یہاں تک فرمایا گیاہے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے (النساء: ۶۴، ۸۰، محمد: ۳۳) اس کے ساتھ آپ کو کچھ اختیارات بھی عطا کیے تھے۔ فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔‘‘ (الحشر:۷) یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ فرائض نبوت کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہی بصیرت اور حکمت عطا فرمائی تھی، جس کی بنیاد پر آپ مقاصد قرآن کی گہرائیوں تک پہنچتے تھے۔ یہ بصیرت اور حکمت لازمۂ نبوت تھی، جو کتاب کے ساتھ آپ کو عطا کی گئی تھی اور اسی کی بدولت آپؐ لوگوں کو تعلیم خداوندی کے مطابق عمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن میں اس کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے۔ (ملاحظہ کیجئے البقرۃ: ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۱، آل عمران: ۱۶۴، الجمعۃ: ۲) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ (القیامۃ: ۱۹) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات و احکام کی جو تشریح و تعبیر آپؐ اپنے قول و عمل سے کرتے تھے وہ آپؐ کے ذہن کی پیداوار نہ تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ِمبارک ہی آپ پر قرآن نازل کرتی تھی اور وہی آپؐ کو اس کا مطلب بھی سمجھاتی اور اس کے وضاحت طلب امور کی تشریح بھی کرتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ آپؐ کے ذرائع معلومات کتاب اللہ کے علاوہ بھی ہیں ، جو قرآن سے ثابت ہیں ۔ سورۂ بقرہ میں ہے: ’’اوروہ قبلہ جس کی طرف تم پہلے رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتاہے۔‘‘ (آیت ۱۴۳) چونکہ قبلۂ اول کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں پایا جاتا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایات ملتی تھیں ۔ لہٰذا حضور کی زندگی کا وہ کارنامہ جو آپؐ نے بعثت کے بعد اپنی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی میں انجام دیا وہ قرآن کے منشا کی توضیح و تشریح کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں منصب رسالت کے دیگر کاموں کی ادائی ہے۔ اس تفصیل سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا منصب شارح کا تھا، نہ کہ ’شارع‘ کا ۔ لیکن بعض علماء آپؐ کے لیے شارع کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers) عطا کیے تھے۔ اس بات کا تذکرہ انھوں نے اپنی تصانیف، خاص کر ’سنت کی آئینی حیثیت‘ میں زور و شور سے کیا ہے اور ایک دو جگہ آپؐ کو ’شارع علیہ السلام‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی صلاحیتوں کا قائل ہونے کے باوجود ان کا یہ نظریہ ناچیز کی عقل و فہم سے پرے ہے۔ کیوں کہ شارع تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، جس کا قرآن میں صراحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ نبی ﷺ کی حیثیت تو صرف شارح کی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے نبی ﷺ کو تشریعی اختیارات حاصل ہونے کی جتنی بھی دلیلیں دی ہیں وہ سب دراصل تشریح کے زمرے میں آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ’’اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی ہو تو پاک ہوئے بغیر نماز نہ پڑھو۔‘‘ (النساء: ۴۳) اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؐ نے بتایا کہ جنابت کیا ہے اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ یعنی غسل کیسے کیا جائے گا؟ یہ سب اضافی باتیں تشریح و تفسیر کے زمرے میں ہی آئیں گی۔اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو سگی بہنوں کو بہ یک وقت ایک مرد سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ (النساء ۲۳) اس کی تشریح و توضیح آپؐنے یوں کی کہ جس طرح دوسگی بہنیں ایک جگہ جمع نہیں کی جاسکتیں اسی طرح خالہ اور بھانجی یا پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انھیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ (النساء: ۱۱) یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر صرف دو لڑکیاں ہوں تو ان کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی وضاحت آپؐ نے یوں فرمائی کہ دو لڑکیاں ہونے کی صورت میں بھی دونوں کو ترکہ میں سے دو تہائی دیا جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ سورۂ النحل آیت ۴۴ میں جس طرح حضوؐر کو قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کا حکم دیا گیا ہے اس طرح قرآن میں تشریعی اختیارات عطا کرنے کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے آپؐ کے تشریعی اختیارات کے حق میں مولانا مودودیؒ نے جو دلائل دیئے ہیں اور جو مثالیں پیش کی ہیں وہ ناکافی معلوم ہوتی ہیں ۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ یہ دین کی کوئی فروعی بحث نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ مولانا مودودیؒ کی رائے مان لینے سے اوّل تو عقیدۂ توحید پر زد پڑتی ہے، دوسرے حضوؐر کے اختیارات میں غلو کے باعث فرقہ واریت کو تقویت پہنچتی ہے، جس سے ملت اسلامیہ کے مزید کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔ امید کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔

فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھنے کی روایت

جنگ احزاب کے وقت اسلامی حکومت قائم ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہوگیا تھا۔ ایک بڑا معرکہ درپیش تھا۔ مقابلے کی تیاری کے آغاز ہی میں خندق کی کھدائی کے دوران تین تین دن سے متواتر فاقے کاٹے گئے۔ کچھ صحابہ کرامؓ نے اگر بیان کیا کہ ان کے پچکے ہوئے پیٹوں پر پتھر بندھے ہوئے ہیں تو نبی ﷺ نے اپنا کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ یہاں دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔
برسر اقتدار ہونے کے باوجود، بہت بڑی جنگ کی تیاری کا آغاز اس طرح کے حالات میں ہوا، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی عقل میں نہیں آتی کہ فاقہ کشی کے دوران پیٹ پر پتھر باندھے گئے۔ اس سے تو تکلیف میں اور اضافہ ہی ہوگا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کا مہر

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ’تذکار صحابیات‘ (طالب ہاشمی) میں حضرت خدیجہؓ کا مہر پانچ سو درہم درج ہے، جب کہ اسی ادارہ سے شائع شدہ کتاب ’محمد عربی ﷺ‘ میں ان کا مہر بیس اونٹ لکھا گیا ہے۔ بہ راہِ کرم مطلع فرمائیں کہ دونوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟