تصوف کی موجودہ کتابیں

مجھے تصوف کے موضوع سے ایک خاص لگائو ہے۔ میں نے اس موضوع پربہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آں جناب کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ کے مطالعہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کی یہ کاوش اس دور میں منارۂ نور ثابت ہوگی۔ اس سلسلے میں کی گئی اب تک … Read more

تصوف کے سلسلے کی کچھ باتیں

ناچیز آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔ بس میں نے آپ کی دوکتابیں پڑھی ہیں۔ پہلی کتاب ’مولانا سید ابوالحسن علی ندوی  کے اعتراضات کاجواب‘ ہے اور دوسری کتاب ’اسلامی تصوف‘ ہے۔ یہ کتاب میں نے آپ کے ایک دیرینہ دوست کو مطالعہ کے لیے دے دی ہے۔ اب تک جتنا حصہ وہ پڑھ چکے … Read more

تصوف کی اصطلاح

مئی ۱۹۸۴ء کی بات ہے کہ آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد دکن کے اردو پروگرام ’سب رنگ‘ کے لیے ’کتابوں کی باتیں ‘ کے تحت مجھے کسی کتاب پر ’ٹاک‘ لکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اس تعارفی تبصرے کے لیے آپ کی کتاب ’اسلامی تصوف‘ کا انتخاب کیا۔ یہ ٹاک ۲۵؍مئی ۱۹۸۴ء … Read more

ترکِ سنت اور مقامِ ولایت

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلے کا گول مول جواب دیتے ہیں ،اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہوکر انکار کردیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں ،کیوں کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ،آپ ہمیشہ مسئلے کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں ۔خدا کرے میرا یہ حسن ظن قائم رہے۔
گزارشات بالا کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیجیے:
(۱)کوئی تارک الدنیا بزرگ ولی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
(۲) حضرت رابعہ بصریؒ نے کیوں سنت نکاح کو ترک کیا تھا؟
(۳) حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ سیّد بابا فرید الدین گنج شکر کے ایک باطنی اشارے پر تاعمر شادی نہ کی تھی۔ آپ کے نزدیک پیرو مرشد کا خلاف سنت اشارہ کرنا اور مرید کا باوجود استطاعت کے سنت نکاح کو ترک کرنا کس حد تک درست ہے؟

کبائر میں جھوٹ کا درجہ

کبائر میں جھوٹ کا کیا درجہ ہے؟کتاب وسنت میں اس کی جس قدر مذمت آئی ہے اور اس کے مرتکب کے لیے جتنی وعیدیں آئی ہیں ،بیان فر مایئے۔کیا بعض حالات ایسے بھی ہیں جن میں جھوٹ بولنا مباح ہوجائے۔

غیبت کی جائز اور ناجائز صورتیں

غیبت گناہ ہے مگر بعض اوقات کسی انسان کے ایسے اخلاقی معائب بیان کرنے ناگزیر ہوتے ہیں جن سے اس کی سیرت کی تصویر کشی ہو، مثلاً وہ جلد باز ہے، غصیلا ہے وغیرہ۔ کیا ضرورۃً بھی ایسا نہیں کیا جاسکتا؟

نیکی کی راہ میں مشکلات کیوں ؟

آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعال بد سے دوچار تھا،لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں ۔میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش۔ اور اب جب کہ میں ان تمام افعال بد سے تائب ہوکر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں ،دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں ۔سوال یہ ہے کہ اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے،اور اگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کاہے کو آئیں گے؟یہ حالت اگر میرے لیے آزمائش ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تویہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟

برائی کامحرک اپنی ذات یا شیطان

جب بھی کسی برائی کے سرز د ہوجانے کے بعد مجھے مطالعۂ باطن کا موقع ملا ہے،تو میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ خارج سے کسی قوت نے مجھے غلط قدم اٹھانے پر آمادہ نہیں کیا بلکہ میری اپنی ذات ہی اس کی ذمہ دار ہے۔جب میری جبلی خواہش میرے فکر پر غالب آجاتی ہے اور میری روح پر نفسانیت کا قبضہ ہوجاتا ہے تو اس وقت میں گناہ کا ارتکاب کرتا ہوں ۔باہر سے کوئی طاقت میرے اندر حلول کرکے مجھے کسی غلط راہ پر نہیں لے جاتی۔ مگر جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ان فکری اور عملی گمراہیوں کا محرک شیطان ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔یہ دشمن انسانیت کبھی خارج سے اور کبھی انسان کے اندر گھس کر اسے غلط راستوں پر لے جاتا ہے۔اس سلسلے میں دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ آپ بھی شیطان کو ایک مستقل وجود رکھنے والی ایسی ہستی تسلیم کرتے ہیں جو انسان کو بہکاتی اور پھسلاتی ہے۔

میرے ایک لا مذہب عزیزکے خیال میں نظریۂ شیطان خدا کے واسطے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ خدا تو نیکی کی توفیق دیتا ہے اور شیطان برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ اور بظاہر توعام طور پر شیطان کی جیت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کرمختصر جواب دیں گے۔

شیطان کی حقیقت

لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی وموت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد وتناسل کے ذریعے قائم ہے؟کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازمات زندگی میں مشغول رہتے ہیں ؟اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟کیا یہ اعضاے جسمانی میں سرایت کرجانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب ومحرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔
یا شیطان عربی زبان کی اصطلاح میں محض ایک لفظ ہے جو ہر اس فرد کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو تخریبی پہلو اختیار کرلے۔ یا یہ انسان کی اس اندرونی جبلت کا نام ہے جسے قرآن نفسِ اَمارہ یا نفسِ لوّامہ کے الفاظ سے تشبیہ دیتا ہے۔یعنی نفس جو غلط کاموں کی طرف اُکساتا ہے۔چوں کہ شیطان کا حربہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اس لیے اس سے بچنے کی خاطر یہ سوال پوچھا جارہا ہے۔