طعام المسکین کے معنی

سورۃ الحاقہ اور سورۃ الماعون کی آیت وَلَا یَحْضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمے ’مسکین کو کھانا کھلانا‘ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’مسکین کا کھانا دینا‘ ۔اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول

معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالۂ احادیث تحریر فرمایا ہے۔یہ کہاں تک درست ہے؟نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں ؟

جنّات اور انسانوں کا دوالگ الگ گروہ ہونا

یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہوگی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن وانس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے، بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب’’ابلیس وآدم‘‘زیر مطالعہ ہے۔اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلو م ہوا۔مصنف لکھتے ہیں : ’’سورۂ الاعراف کی آیت:۷ میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورۂ انعام کی آیت:۶ میں جن وانس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ)آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات(آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں ۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مرد۔ اس لیے جب’’گروہ جن وانس‘‘سے کہا گیا کہ تم میں سے(مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ’’گروہِ جن وانس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں ۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے۔‘‘ براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہوسکتے ہیں ؟

جِن اور انس اور خلافتِ ارضی

کیا انسانوں کے ساتھ جِن بھی خلافتِ ارضی میں شریک ہیں ۔ کیا ان کی نفسیات بھی انسانی نفسیات کے مماثل ہیں ۔ یہ مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جِن سوار ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ابلیس یا شیطان ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور ہر انسان تک بیک وقت رسائی رکھتا ہے؟

شیطان کا سر

تفہیم القرآن جلد چہارم ،صفحہ ۲۸۹ (طبع اول) آیت۵۶، سورۂ الصّٰٓفّٰت ،ح۳۶ —— تشبیہ دینے والے (خدا) کے لیے توتشبیہ کے دونوں ارکان (مشبہ و مشبہ بہ) مشہود ہیں ۔ رہے انسان، تو انھوں نے شیطان کے سر نہیں دیکھے تو زقوم کے شگوفے تو دیکھ رکھے ہیں ۔ مشبہ بہ کی مناسبت سے مشبہ کے متعلق کچھ نہ کچھ تصور قائم کیا جا سکتا… لہٰذا اسے ’’تخیلی تشبیہ‘‘ قرار دینا موزوں نظر نہیں آتا… اس سلسلے میں جو مثالیں مفسر محترم نے پیش کی ہیں وہ اس لیے غیر متعلق ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے انسان ہیں جنھوں نے واقعی ان چیزوں کو نہیں دیکھ رکھا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے تو شیطان اور اس کا سر دیکھ رکھا ہے۔

قرآن کا مطلوب انسان

کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں ،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی راے تحریر کیجیے:
[۱] ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔
[۲] ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
[۳] ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں ،انھیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آئندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
[۴] اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
[۵] مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات، میلانات، اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔({ FR 2598 })

فرد اور معاشرے کی کش مکش

فرد اور سوسائٹی کے باہمی تعلقات کی نسبت مندرجہ ذیل خیال اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صائب ہے؟
’’شہد کی مکھیوں ،چیونٹیوں اور دیمک کے برعکس انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ حد تک ایک فرد ہے۔بدرجۂ آخر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ گلوں میں بٹ کر جینے کی جبلت رکھتا ہے۔ یہی راز ہے فرد اور معاشرے کے غیر مختتم تصادم کا! کوئی مذہب عدم توافق کی اس گرہ کو کھولنے پر قادر نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ گرہ کھلنے والی ہے ہی نہیں ! کیا خود قرآن نے نہیں کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ (التین:۴)اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی… کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا (البلد:۴)۔ میری راے میں ان آیات کی بہترین تأویل یہ ہے کہ ایک مشین — نظام جسمانی — کی حیثیت سے آدمی اشرف المخلوقات ہے۔لیکن معاشر ے کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ معاشر ے کے ساتھ ہمہ وقت متصادم رہنے والا ہے۔‘‘

سورة الشوریٰ ،آیت ۲۳کی تشریح

تفہیم القرآن ،سورئہ الشوریٰ آیت ۲۳ ح۴۱ صفحہ ۵۰۱ آپ نے اپنی راے محفوظ رکھی ہے۔ ’’قربیٰ‘‘ کے سلسلے میں واضح فیصلہ ضروری تھا۔ ایک طبقے کی تفریق کی اصل بنیاد یہی ہے۔

دین و شریعت کی تشریح

تفہیم القرآن جلد چہارم سورۃ الشوریٰ کے حاشیہ۲۰ صفحہ ۴۸۸-۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:
’’بعض لوگوں نے…یہ راے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں ، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو ماننا اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی راے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک راے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح؈ کی امت کو خراب کر دیا۔‘‘
بعدازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رسالہ دینیات کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص راے میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

انسان کے اندر مادۂ تخلیق کا ماخذ

میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورئہ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵ تا۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اس کے حاشیے میں آپ کی تشریح میں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ جہاں تک عملی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ مادہ فوطے (testicle) میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار میں کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالیinguinal canalمیں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ غدود کا نام prostate ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو میں سمجھ نہ سکا۔ البتہ اس کا کنٹرول ایک ایسے نروس سسٹم سے ہوتا ہے جو کہ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان جال کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک خاص حد تک۔ اس کا کنٹرول ایک اور غدود جوکہ دماغ میں ہوتا ہے، اس کی رطوبت سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں اخراج کا ہے (جو کہ ایک نالی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے)۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے (جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ) کہ آپ سائنٹی فِک علم پر یقین رکھتے ہیں ۔