دین و شریعت کی تشریح

تفہیم القرآن جلد چہارم سورۃ الشوریٰ کے حاشیہ۲۰ صفحہ ۴۸۸-۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:
’’بعض لوگوں نے…یہ راے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں ، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو ماننا اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی راے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک راے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح؈ کی امت کو خراب کر دیا۔‘‘
بعدازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رسالہ دینیات کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص راے میں اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

انسان کے اندر مادۂ تخلیق کا ماخذ

میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ ماہ ستمبر کے ترجمان القرآن میں آپ نے سورئہ ’’الطارق‘‘ کی آیات ۵ تا۷ کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر اس کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اسے میں سمجھ نہیں سکا۔ ترجمہ یہ ہے:
’’پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘
اس کے حاشیے میں آپ کی تشریح میں نے بغور کافی دفعہ پڑھی ہے لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ جہاں تک عملی مشاہدے کا تعلق ہے تو یہ مادہ فوطے (testicle) میں پیدا ہوتا ہے اور باریک باریک نالیوں کے ذریعے بڑی نالیوں میں گزرتا ہوا پیٹ کی دیوار میں کولہے کی ہڈی کے عین متوازی ایک نالیinguinal canalمیں سے گزر کر قریب ہی ایک غدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ غدود کا نام prostate ہے اور پھر وہاں سے رطوبت لے کر اس کا اخراج ہوتا ہے۔ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان سے اس کے گزرنے کو میں سمجھ نہ سکا۔ البتہ اس کا کنٹرول ایک ایسے نروس سسٹم سے ہوتا ہے جو کہ سینے کی ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی کے درمیان جال کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک خاص حد تک۔ اس کا کنٹرول ایک اور غدود جوکہ دماغ میں ہوتا ہے، اس کی رطوبت سے ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہاں اخراج کا ہے (جو کہ ایک نالی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے)۔ میری درخواست ہے کہ آپ مجھے مفصل لکھیں کہ اس کی تفسیر کیا ہے۔ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے (جس کے لیے معذرت خواہ ہوں ) کہ آپ سائنٹی فِک علم پر یقین رکھتے ہیں ۔

نفس کی تعریف

مجھے آپ کی کتابیں پڑھنے اور آپ سے زبانی گفتگو کرنے سے بے حد فائدہ ہوا ہے اور ہمیشہ آپ کے حق میں دعاے خیر کرتا رہتا ہوں ۔ میں آج کل امریکا میں بالخصوص نفسیاتی علوم اور ذہنی عوارض کے فنِ علاج کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ اور آپ کی اسلامی بصیرت سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں ۔راہ نمائی کیجیے کہ اسلام میں ’’نفس‘‘ کی کیا تعریف ہے؟

نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی تعریفیں

نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کی نفسیاتی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ ان اصطلاحات پر پوری راہ نمائی درکار ہے تاکہ ہمیں سوچنے کا مواد فراہم ہوسکے اور وہ اسلام کا ایک فلسفیانہ اور نفسیاتی مدرسۂ فکر بنانے میں مفید ثابت ہو۔

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا …کی تشریح

قرآنِ مجید کی اس آیت کی تشریح کیا ہوگی؟ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا({ FR 2275 }) ( الشمس :۷-۸ ) یہ محض ایک حیاتیاتی (بیولاجیکل) محرک ہے یا اس سے زائد کوئی شے ہے۔ آیات کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ کوئی دوسرا وجود ہے جو نفس کو اپنے تحت رکھتا ہے اور اُس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ تقویٰ اور فجور کے الہام کیے جانے سے کیا مراد ہے؟

متقی کے لیے رزق کا وعدہ

متقی کو رزق کی فراہمی کا بہت جگہ ذکر آیا ہے مگر کئی ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو باوجود نہایت متقی ہونے کے نہایت تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان داری سے رزق کمانے والوں کی حالت تو بہت کمزور ہے مگر بد دیانت لوگوں کی آمدنی وافر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر قلبی اطمینان کو بہت ضعف پہنچتا ہے اور ایمان داری کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ عموماً لوگ غلط طریقے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں اور شریعت کی پابندی کرنے والے لوگ جو ایسے غلط طریقوں سے بچتے ہیں ، کامیاب نہیں ہونے پاتے۔ امید ہے آپ ان اُلجھنوں کو دور فرمائیں گے۔

قومِ ثمود کے مساکن

ڈاکٹر نکلسن نے اپنی معروف تصنیف ’’اے لٹریری ہسٹری آف دی عربز (عربوں کی ادبی تاریخ) کے پہلے باب میں ’’افسانہ ثمود‘‘ کے زیر عنوان یہ راے درج کی ہے:
قرآن میں ثمود کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مکانوں میں رہتے تھے جو انھوں نے چٹانوں سے کاٹ کر بناے تھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ محمد کو ان تراشیدہ غاروں کی صحیح حقیقت معلوم نہیں تھی، جو آج بھی حجر (مدائن صالح) میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہ مدینہ سے شمال کی طرف ایک ہفتے کے سفر پر واقع ہیں اور ان پر نبطی زبان میں جو کتبے کندہ ہیں انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ مکانات نہیں بلکہ مقبرے ہیں ۔ (ص۳، کتاب مذکور)
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں خاکسار کے شرح صدر کے لیے اپنی تحقیق سے آگاہی بخشیں گے۔

چند قرآنی مفردات کی توضیح

فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ…… وَبَصَلِھَا ( تفہیم القرآن، جلد اول، ص۷۹-۸۰، رکوع۶)
آپ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’اپنے رب سے دُعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، گیہوں ، لہسن، پیاز دال وغیرہ پیدا کرے۔‘‘
’’ساگ‘‘ کے بعد یہ (،) نشان ہے، پھر آپ نے ’’ترکاری‘‘ لکھا ہے بَقْلِھَا کا ترجمہ ’’ساگ ترکاری‘‘ ٹھیک ہے، مگر دونوں لفظوں کے درمیان یہ نشان (،) محل غور ہے! آپ کے ترجمے سے ایسا لگتا ہے کہ قِثَّائِھَا کا ترجمہ آپ نے ’’ترکاری‘‘ کیا ہے، حالانکہ قِثّائِھَا ’’ککڑیوں ‘‘ کو کہتے ہیں ۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے، عبداللّٰہ یوسف علی نے بھی قِثّائِھَا کو انگریزی میں cucumbers لکھا ہے! بصل پیاز کو کہتے ہیں یا ’’لہسن پیاز‘‘ کو! ’’لہسن‘‘ قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ پھر آپ کے ترجمے میں ترتیب یوں ہوگئی ہے۔ ’’پیاز دال وغیرہ‘‘، حالانکہ ’’پیاز‘‘ آخر میں آنا چاہیے تھا۔ کیا ’’وغیرہ‘‘ کا اضافہ مفسرین نے کیا ہے؟

قرآنی احکام کے جزئیات میں رد ّو بدل

میں ایک جواں سال طالب علم ہوں ۔۱۹۷۰ء سے جماعت اسلامی کا ذہنی ہم درد اور آپ کا ایک عقیدت مند۔ لیکن آپ کے ساتھ عقیدت ہو یا کسی کے ساتھ دشمنی، میرے پیش نظر ہمیشہ خاتم النبیین (ﷺ) کی یہ حدیث شریف رہتی ہے کہ محبت اور نفرت کا معیار صرف قرآن پاک اور سنت صادقہ پر رکھو۔ میں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں خداے واحد کی بارگاہ میں بھی یہ عرض کرسکتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اسلام کے سمجھنے، شعوری طور پر اس پر عمل کرنے اور اسلام کی خدمت کرنے اور اقامت دین کے مقدس فریضے کو انجام دینے کا جذبہ پیدا کیا۔ ان تمہیدی کلمات کے بعد میں اس مسئلے کی طرف آتا ہوں جس نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ یہ چیز واقعتاً میرے دل میں کھٹکتی ہے۔ یہ آپ کی وہ تحریر ہے جو آپ کی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں مندرج ہے۔ میرے پاس اس کتاب کا مارچ ۱۹۷۰ء کا اڈیشن ہے۔ ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ ’’رسول اللّٰہ نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں ، کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے؟ کیا اسی قسم کا ردّ و بدل قرآن کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ان میں اسی حد تک رد و بدل ہوسکتا ہے جب اور جس حد تک حکم کے الفاظ اجازت دیتے ہوں ۔ اس چیز میں آپ نے قرآن پاک کو بھی شامل کر دیا ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے صفحہ ۱۲۷ پر دیے گئے سوال اور جواب کو دوبارہ پڑھیں ۔ میرے خیال میں یہ چیز قرآن پاک کی مستند حیثیت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ میرے خیال ناقص کے مطابق ہی نہیں ، فرمانِ الٰہی کے مطابق بھی کلام پاک ایک محفوظ کتاب ہے جس کے ایک شوشے میں بھی ردّ و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اور فیصلہ سنت ثابتہ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ حکم کے مطابق ردّ و بدل کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
(۱) اس تحریر میں ’’قرآنی احکام کے جزئیات‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟
(۲) اگر اس سے مراد کوئی آیت پاک ہے تو کیا کوئی غیر صاحبِ وحی اس میں ردّ و بدل کا مختار ہے؟
(۳) رسولِ اکرمؐ کے تشریف لے جانے کے بعد کیا قرآن پاک کے احکام میں رد و بدل ہوسکتا ہے؟
(۴)اور کیا خود رسول اکرمﷺ قرآنی احکام کی جزئیات میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرسکتے تھے؟
(۵)ختم نبوت کے خلاف کیا یہ تحریر ایک ثبوت اور دلیل کا باعث نہیں بنتی ہے؟
(۶) آپ نے جو بات لکھی ہے کیا آپ اس کے سلسلے میں قرآن پاک، سنتِ رسول یا مسلک ائمہِ اربعہ سے ثبوت دے سکتے ہیں ؟
(۷) اگر کوئی دلیل اس سلسلے میں آپ کے پاس نہیں تو کیا آپ اپنی راے سے رجوع کرنے کے لیے تیار ہیں ؟
مولانا صاحب، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو بات کا بتنگڑ بنا کر اس کی تشہیر کرتے اور اسے کسی شخص کے خلاف نفرت و حقارت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے حق سمجھ کر لکھا ہے۔ میرا مطالعہ صرف آپ کی کتب تک محدود نہیں بلکہ اس مختصر عمر میں میں نے اسلاف کی مقدس تحریروں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور یہ کتب مطالعہ کرنے اور جذبہ اسلام پیدا کرنے میں آپ کی کتب کا پورا اور ۱۰۰ فی صد حصہ ہے، جس کے لیے میں اللّٰہ تعالیٰ سے آپ کے لیے جزاے خیر کا طالب ہوں ۔