حضرت خَضِر؈ کی بشریّت کا مسئلہ

تفہیم القرآن جلد سوم سورۂ الکہف،زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر؈ کا واقعہ اورآپ کا حاشیہ نمبر۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں ۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے اُمور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں ۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکرائو‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خَضِر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں ان کو فرشتے انجام نہیں دیا کرتے۔ رضاے الٰہی کسی انسان کے نفع و ضرر کے پیشِ نظر، کسی فرشتے یا کارکنانِ قضا و قدر کو، کسی خاص مشن پر اُسی وقت مامور فرماتی ہے جب انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے اور اس کی ساری توانائی اور اس کے تمام ذرائع و وسائل جواب دے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی کارکردگی کے طور طریقے بھی انسانی طور طریقوں سے بالکل مختلف اور ممتاز قسم کی ندرت بھی رکھتے ہیں ۔
کشتی کا تختہ توڑنے، لڑکے کو ہلاک کرنے اور گرتی دیوار کو سنبھالا دینے کے لیے کسی فرشتے کی توانائی درکار نہیں ہوتی۔ یہ معمولی انسانی کام ہیں اور ان میں وہ امتیازی نُدرت بھی نہیں پائی جاتی جو غیبی کارکردگی کی طرف ذہن کو منتقل کرسکے۔ اس لیے قرینہ یہی کہتا ہے کہ حضرتِ خضرؑ بشر تھے، فرشتہ نہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرؑ دونوں نے اہل قریہ سے غذا کی خواہش کی تھی جیسا کہ جمع کے صیغے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں بھوکے تھے، دونوں کو احتیاجِ غذا تھی۔ اگر حضرت خضرؑ واقعی فرشتہ ہوتے تو وہ احتیاجِ غذا سے یقیناً مستغنی ہوتے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ نے جب تلا ہوا بچھڑا فرشتوں کی ضیافت میں پیش کیا تو وہ اس وجہ سے دست کش رہے کہ احتیاجِ غذا سے فطرتاً مستغنی تھے۔ اس سے بھی یہی قرینہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضرؑ بشر تھے۔ فرشتہ نہ تھے۔
بے قصور لڑکے کی ہلاکت صرف حضرت موسیٰعلیہ السلام جیسے حاملِ شریعت ہی کے لیے باعثِ حیرت اور موجبِ اذیت نہ تھی بلکہ ہر سلیم الفطرت انسان کی نظر میں بھی اس کی قباحت واضح تھی۔ مگر حکمِ الٰہی مل جانے کے بعد بجز تعمیلِ حکم کے کوئی گنجایش ہی کہاں تھی۔ یا اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اپنی چہیتی اولاد کو حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی اُس شریعت کا سہارا لے کر کوئی عذرِ شرعی پیش کرنے پر مائل تک نہ ہوسکے جس کی رُو سے ناکردہ گناہ اولاد کا قتل، گناہِ عظیم ہے۔
دونوں بزرگوں نے تعمیلِ حکمِ الٰہی کی پیش رفت میں جس جرأت مندانہ انداز میں احتسابِ شریعت سے اجتناب فرمایا اس سے تو بظاہر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معمولاً احکامِ شریعت کی پابندی لازم ہے، مگر جب کسی شخص کو کسی امرِ خاص میں بطورِ خاص براہِ راست حکمِ الٰہی مل جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ احکامِ شریعت سے صرفِ نظر کرسکے۔
ان بزرگانِ محترم کے طرزِ عمل، اور اندازِ فکر کو ملحوظ رکھ کر متأخرین کی کاوشِ فکر سے ہم آہنگ ہونے پر طبیعت نہ تو راضی ہوتی ہے اور نہ حضرت خضر کی بشریت کا انکار کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتِ عام تو ہر شَے کو محیط ہے مگر جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی کسی رحمتِ خاص کا ذکر اٰتَیْنٰہُ رَحْمۃً مِّنْ عِنْدِنَا اور وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا کے الفاظ میں فرماتا ہے تو اُس کی رحمت کی نوعیت اور وسعت تقریباً اسی پیمانے کی محسوس ہوتی ہے جو بعض نبی یا رسول کے لیے وَاٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا کے الفاظ میں مستور پائی جاتی ہے۔ میری حدِ علم تک درج بالا تینوں آیات کسی فرشتے کے حق میں کبھی نازل نہیں ہوئیں ۔ اور جب کسی خوش نصیب انسان سے یہ آیات متعلق ہوتی ہیں تو ان کی تعبیر و تفسیر میں نبوت یا رسالت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اگر یہ تأویل قابلِ قبول ہو تو پھر حضرت خضرؑ صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ نبی یا رسول بھی ہوسکتے ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جب کسی فرد انسان کو اپنے کسی خاص علم و معرفت سے نوازنا چاہا ہے اور کوئی فرشتہ اس کا واسطہ قرار پایا ہے تو خود فرشتے ہی کو حاضرِ خدمت کیا گیا ہے، حاملِ وحی و الہام کو نقلِ مقام کی زحمت نہیں دی گئی اور نہ وہ خود ایسے فرشتے کی جستجو میں نکلا۔ واللّٰہ اعلم
مندرجہ بالا جو قرائن خدمتِ گرامی میں پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ہر قرینہ باعثِ خلش بنا ہوا ہے۔ اس کو دور کرنے کے لیے آپ ہی کو زحمتِ تفہیم دینے کے سوا چارہ نہیں ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جو دینی فکر و فہم اللّٰہ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ۔ دوسرے یہ کچھ مناسب بھی نہیں کہ قیاس و گمانِ غالب تو آپ کا ہو اور استفسار کسی دوسرے سے کیا جائے۔

کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا مطلب

قرآن کریم میں کتاب کے ساتھ میزان اُتارنے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کا کیامطلب ہے؟ الہامی قانون کے ساتھ وہ کون سی ترازو اُتاری گئی ہے جس پر ہم اپنی سوسائٹی کے جواہر اور سنگ ریزوں کے وزن اور قیمت کا انداز ہ کرسکیں ۔مفسرین کا یہ کہنا کہ انسانیت کے اخلاقی اعتدال کا نام میزان ہے،درست نہیں ہوسکتا۔ اوّل تو شخصی ضمیر کے اخلاقی احساسات سچائیوں کا صحیح وزن وقیمت متعین نہیں کرسکتے۔دوسرے یہ کہ میزان کے ساتھ کتاب اُتاری گئی ہے اور انسانی ضمیر کی میزان پیغمبروں اور کتابوں کے ساتھ نہیں اُتاری جاسکتی،وہ پہلے بھی تھی اور بعد کو بھی رہے گی۔

’’نُور‘‘ اور ’’کتابِ مُبین‘‘ کا مطلب

تفہیم القرآن کے مطالعے سے دل کو سکون اور ذہن کو اطمینان ہوتا ہے۔ لیکن سورۂ المائدہ میں قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (المائدہ:۵۱) کا ترجمہ و تفسیر کرتے وقت آپ سے ایک ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس سے ایک گروہ کو اپنے مفید مطلب مواد ملنے اور دوسرے گروہ کو آپ کی علمیت پر انگشت نمائی کا موقع حاصل ہونے کا پورا امکان ہے۔ آپ نے آیت کے اس حصے کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب (جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اُس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے…)‘‘
اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’روشنی‘‘ کو ایک الگ شے اور ’’حق نما کتاب‘‘ کو بالکل دوسری چیز سمجھتے ہیں … اسی کے حاشیہ (نمبر۳۸) سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے وہاں تحریر فرمایا ہے:
’’جو شخص اللّٰہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے۔‘‘ گویا آپ ’’نور‘‘ سے رسولِ کریمؐ کی ذات یا ان کی زندگی اور ’’کتابِ مبین‘‘ سے قرآن مجید مراد لے رہے ہیں ۔ حالانکہ اگلی آیت کا دوسرا لفظ بِہِ اللّٰہُ صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں (نور اور کتابِ مبین) سے مراد ایک چیز ہے، دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ۔ اگر دو الگ ہوتیں تو بِہ ٖکی جگہ بِھِمْ آتا جیسا کہ آپ کا ترجمہ خود بتا رہا ہے: ’’جس کے ذریعے (نہ کہ جن کے ذریعے) سے اللّٰہ تعالیٰ اُن لوگوں کو …‘‘
رہا یہ سوال کہ دونوں اگر ایک ہی چیز ہیں تو وہ چیز کیا ہے؟— رسول یا قرآنِ مجید؟ —یہ تو آپ بھی تسلیم فرمائیں گے کہ رسولِ اکرمﷺ کو سارے قرآن میں نہ کہیں ’’نور‘‘ کہا گیا ہے اور نہ ’’کتابِ مبین!‘‘ البتہ قرآنِ کریم کو کئی مقامات پر (مثلاً سورۂ النساء آیت ۱۷۴، سورۂ الاعراف آیت۲۵۷، سورۂ الشوریٰ آیت ۵۲ اور سورۂ التغابن آیت ۸) ’’نُور‘‘ سے یاد کیا گیا ہے اور ’’کتابِ مبین‘‘ تو وہ ہے ہی۔
اب یہ سوال ہے، ’’نور‘‘ اور ’’کتابِ مبین‘‘ کے درمیان جو ’’واو‘‘ ہے وہ کیسی ہے؟ اور اس کا مفہوم اگر ’اَور‘ نہیں ہے تو کیا ہے؟ یقینا ’’واو‘‘ عاطفہ بھی ہوتی ہے جس کا مطلب ’اَور‘ ہوتا ہے۔ لیکن ’واو‘ تفسیری اور توضیحی بھی ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ قرآن اپنی تفسیر آپ بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر :
الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ۝ ( الحجر:۱)
’’یہ کتاب یعنی واضح قرآن کی آیات ہیں ۔‘‘
کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہوگا: ’’ الۗر، یہ کتاب اور قرآن واضح کی آیات ہیں ؟‘‘ (حالانکہ کتاب اور واضح قرآن ایک چیز ہیں )
اسی طرح سورۂ ’النمل‘ کی ابتدائی آیت:
طٰسۗ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ ۝ (النمل:۱ )
’’طٰسٓ، یہ قرآن یعنی ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں ۔‘‘
طٰسٓ، ’’یہ قرآن اور ایک کتاب واضح کی آیتیں ہیں ‘‘ کے ترجمے سے شک پڑتا ہے کہ شاید’ ’قرآن‘‘ اور شے ہو اور ’’کتابِ واضح‘‘ اور چیز! حالانکہ ’’قرآن‘‘ اور’ ’کتابِ واضح‘‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ ’’وائو‘‘ تشریح اور تفسیر کے لیے (یعنی کے معنوں میں ) بھی استعمال ہوتی ہے۔ آیت زیرِ نظر قَدْجَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ میں بھی ’وائو‘ توضیحی و تفسیری ہی ہے۔
آپ کا ترجمہ دراصل یوں ہونا چاہیے تھا:
تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی یعنی ایک ایسی حق نما کتاب آگئی ہے جس کے ذریعے…
اور تشریحی نوٹ (حاشیہ نمبر ۳۸) یوں ہوتا تو درست ہوتا: ’’… جو شخص اللّٰہ کی کتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اُسے فکرو عمل…‘‘
رہا رسول کا ذکر تو وہ اسی آیت کے پہلے حصے میں یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآء َکُمْ رَسُوْلُنَا … عَنْ کَثِیْرٍکے الفاظ میں ہوچکا ہے۔
متأخرین میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اسی حصے کا ترجمہ: ’’تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے یعنی قرآن مجید…) اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ …‘‘ کیا ہے۔
انھی کے شاگرد مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں اسی مقام پر ’’مبین‘‘ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
’’مبین سے اشارہ نکلتا ہے کہ قرآنِ مجید نہ صرف فی نفسہٖ نُور ہے بلکہ یہ دوسری اشیا کو بھی واضح اور روشن بنا دیتا ہے۔‘‘
امید ہے آپ ان گزارشات کی روشنی میں تفہیم القرآن کے اس حصے پر نظر ثانی فرمائیں گے تاکہ ایک فریق کو اپنے غلط عقائد کے لیے غذا اور فریقِ دیگر کو تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔

نباتات و حشرات کی مَوت و حیات

سورۃ النحل صفحہ ۵۵۰ پر آیت ۶۵ کا آپ نے مندرجہ ذیل ترجمہ کیا ہے: ’’(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو) کہ اللّٰہ نے آسمان سے پانی برسایا اور مُردہ پڑی ہوئی زمین میں اس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں حاشیہ۵۳ پر آپ نے جو تحریر فرمایا، اس کا اختصار حسبِ ذیل ہے:
’’پچھلی برسات کے بعد جو نباتات مرچکی تھی، یا بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا (یعنی مرچکے تھے) یکا یک پھر اُسی شان سے نمودار ہوگئے (یعنی دوبارہ زندہ ہوگئے) پھر بھی تمھیں نبیؐ کی زبان سے یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللّٰہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔‘‘
زندگی بعد الموت کی یہ مثال بالکل خلافِ حقیقت و مشاہدہ ہے۔ کوئی پیڑیا پودا مکمل طبعی موت کے بعد زندہ نہیں ہوتا، چاہے کتنے ہی برساتیں گزر جائیں ۔ صرف وہ جڑیں پُھوٹتی ہیں جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی رہتی ہے۔ دوم کیڑے مکوڑے گرمیوں میں یقیناً مر جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عرصۂ دراز تک بے حس و حرکت (hybranted)پڑے رہتے ہیں یا انڈے، لاروا، پیوپاکی صورت میں زمین، لکڑیوں ، دروازوں ، سوراخوں ، پانی وغیرہ کسی جگہ پر موجود رہتے ہیں اور مناسب درجۂ حرارت و رطوبت اور موافق موسم کے آتے ہی اپنے اپنے خول سے نکل آتے ہیں ۔ مکھی، مچھر، پروانے، کھٹمل اور زمین کے تمام حشرات الارض کے مختلف ادوارِ زندگی ہوتے ہیں ۔ اور دنیا کے ہر خطے کی آب و ہوا کے مطابق وہ درجات مختلف اوقات میں پایۂ تکمیل پاتے ہیں ۔ لہٰذا یہ مثال کہ نباتات یا حشرات الارض موت کے بعد دنیا ہی میں دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں ، قطعی خلافِ حقیقت ہے۔
اس تفسیر کو قلم بند کرنے سے پہلے اگر آپ علمِ نباتات (Botany) اور علم الحشرات (Entomology) کے کسی عالم یا متعلم سے مشورہ کر لیتے یا ان کے متعلق کوئی کتاب ہی مطالعہ فرما لیتے تو ایسے اہم موضوع پر اتنی عام غلطی نہ سرزد ہوتی۔ ایسی پر مغز اور عظیم تفسیر میں ایسی خلافِ سائنس یا خلافِ حقیقت و مشاہدہ بات پڑھ کر وہ لوگ جن کو آپ سے عقیدت نہیں ہے یا جو آپ کی عظمت کے قائل اور علمیت سے واقف نہیں ہیں بقیہ مضامین کو بھی اس پیمانے پر ناپیں گے۔ مَیں یہ گزارشات اپنے محدود علم اور ایک ماہرِ حشرات الارض سے مشورہ کرنے کے بعد لکھ رہا ہوں ۔

حروفِ مقطّعات کے معانی

تفہیم القرآن میں آپ نے حروفِ مقطّعات کی بحث میں لکھا ہے کہ دورِ نزولِ قرآن میں الفاظ کے قائم مقام ایسے حروف کا استعمال حسن بیان اور بلاغت زبان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ ان کے معنی ومفہوم بالکل معروف ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اس وقت ان کے استعمال پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ ان حروف کی تشریح چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ان کے سمجھنے پر ہدایت کا انحصار ہے۔ اس بارے میں میری حسب ذیل گزارشات ہیں :
اگر ان حروف کے معانی ابتدائی دور میں ایسے معروف تھے تو یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ ان کا استعمال شعر وادب میں متروک ہوگیا اور دفعتاً ان کے معانی اذہان سے کلیتاً محو ہوگئے۔اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اگر آج بلاد عربیہ میں چند ایسے الفاظ کا استعمال متروک ہوجائے جو قرآن میں بھی آئے ہیں تو کچھ عرصے کے بعد دنیاے اسلام میں قرآن کے ان الفاظ کا صحیح مفہوم متعین نہیں رہے گا۔پھر اس سے بھی عجیب تر آپ کا یہ استدلال ہے کہ چوں کہ ان حروف کے معانی کے تعین پر ہدایت و نجات کا مدار نہیں اس لیے ان کی تشریح وتوضیح کی ضرورت نہیں ۔اس طرح تو قرآن کے بیش تر حصے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مطلب سمجھنے پر ہدایت کا انحصار نہیں ،اور اُس حصے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔اس نظریے کے تحت تو تجدد پسند حضرات سے کچھ بعید نہیں کہ وہ قرآن کے ایک حصے کو اہمیت دیں اور دوسرے حصے سے صرف نظر کرلیں ۔براہ کرم آپ اپنے موقف کی دوبارہ وضاحت فرمائیں ۔

قدیم عربوں میں حروفِ مقطعات کا رواج

تفہیم القرآن میں حروف مقطعات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ اسلوب شعراے جاہلیت میں معروف تھا جو بعد میں متروک ہوگیا۔ اس سلسلے میں چند معروضات ہیں :
(۱) کیا اس کی مثال شعراے جاہلیت کے اشعار میں یا خطبا کے خطبوں میں ملتی ہے؟
(۲) صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اس کے اثبات میں کچھ منقول ہے؟
(۳) کیا حروف مقطعات کا اسلوب اگر بعد میں متروک ہوگیا، تو یہ ’’عربیِ مبین‘‘ کے خلاف تو نہیں ؟

یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

سورۃالبقرۃ:آیت ۱۵۴،شہدا کی حیاتِ برزخ

سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول صفحہ۱۲۶ میں ، اللّٰہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انھیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انھیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔
سورئہ یٰسٓ آیت ۲۶، حاشیہ ۲۳، تفہیم القرآن، جلد چہارم میں مردِ مومن کی شہادت کے بعد اس کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتِ برزخ کو ثابت کرنے والی آیات میں سے یہ آیت بھی ایک ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالم برزخ میں روح جسم کے بغیر زندہ رہتی ہے، کلام کرتی ہے اور کلام سنتی ہے، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دل چسپیاں باقی رہتی ہیں ۔ اس پر اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس مقام میں تو ایک شہید کی حالت کا ذکر ہے اور شہید کی زندگی بعد موت کا ذکر قرآن میں سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴ور دیگر مقامات میں بھی ہے۔ لیکن تفہیم کے اس حاشیے میں ایک شہید کے حالات کو بھی عام وفات یافتہ انسانوں پر کیوں منطبق کیا گیا ہے؟

سورہ المؤمنون آیت ۵۷-۶۱ اور اس کے ترجمے میں تقدیم و تاخیر

سورۃ المؤمنون آیت۵۷-۶۱ تک کا ترجمہ جلد دوم میں صفحہ۲۸۳ سے ۲۸۷ تک چلتا ہے۔ قرآن کا متن جو تفہیم القرآن میں شائع ہوا ہے اس میں صفحہ ۲۸۷ پر یُسَارِعُوْنَ کا لفظ آتا ہے، لیکن اس کا ترجمہ صفحہ۲۸۳ پر ہی کر دیا گیا ہے۔ اکثر پڑھنے والوں کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ چونکہ اصل لفظ اور ترجمے میں چار صفحات کا فاصلہ ہے اس لیے پڑھنے والے کا ذہن اُلجھ جاتا ہے۔

اقتدار میں جبر

آیت لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ ( البقرة:۲۵۶)کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر کہتا ہے کہ’’مسلمانو ں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ جب ان کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو انھیں اس اُصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دین میں جبر سے کام نہ لیا جائے۔‘‘ یہ مفسر اس آیت کے حکم کو صرف اس حالت کے لیے کیوں مخصو ص کرتا ہے جب کہ مسلمان اقتدار رکھتے ہوں ؟کیا آپ اس تأویل سے اتفاق کرتے ہیں ۔ اگر آپ کو بھی اس سے اتفاق ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک جبر سے کام لے سکتے ہیں جب تک انھیں اقتدار حاصل نہ ہوجائے؟