اعتکاف کے آداب

میں ایک مدرسہ میں کام کرتا ہوں ، مدرسہ کے ناظم ہر سال رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ مدرسہ کے دیگر ذمہ دار اور اساتذہ بھی اعتکاف کرتے ہیں ۔ مدرسہ میں نئے سال کی تعلیم شوال سے شروع ہوتی ہے، اس لیے داخلہ فارم رمضان میں آتے ہیں ، انھیں چیک کرکے جواب دینا ہوتا ہے۔ یہ سارا دفتری کام ناظم صاحب دوران اعتکاف انجام دیتے ہیں ۔ داخلہ چاہنے والے جو لوگ آتے ہیں ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک اعتبار سے پورا دفتر نظامت رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ناظم صاحب اعتکاف میں موبائل بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ اس طرح وہ باہر کے لوگوں سے برابر رابطہ میں رہتے ہیں ۔
یہ چیزیں مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتی ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا دوران ِ اعتکاف ان کاموں کی انجام دہی کی اجازت ہے؟

کیا عید کی نماز اگلے دن پڑھی جاسکتی ہے؟

امسال رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو چاند نظر آگیا اور اگلے دن عید الفطر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن عید کے دن صبح ہی سے زبردست بارش ہونے لگی، جو دیر تک ہوتی رہی۔ سڑکیں ، راستے اور میدان پانی سے بھر گئے۔ بالآخر عیدگاہ کے امام صاحب نے اعلان کردیا کہ آج عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، اس کے بجائے کل نماز ہوگی۔ اس سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور دو گروپ بن گئے۔ کچھ لوگوں نے امام صاحب کی تائید کی، جب کہ دوسرے لوگوں نے کہا کہ عید کا دن گزر جانے کے بعد اگلے دن اس کی نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
بہ راہ کرم اِس مسئلے میں صحیح بات واضح فرمائیں ۔ کیا عید کی نماز کسی عذر کی بِنا پر عید کے اگلے دن پڑھنا درست ہے؟

یوم عاشورا کا روزہ

یوم عاشورا کی اہمیت کے بارے میں مشہور ہے کہ اس دن کئی تاریخی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک تاریخی واقعہ یہود کے بارے میں ہے کہ انھیں اس دن فرعون سے نجات ملی۔ اس لیے یوم عاشورا کو یہود کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود سے امتیاز کرنے کے لیے یوم عاشورا سے قبل یا بعد ایک دن اور ملا کر دو دن روزہ رکھنا چاہیے۔ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یوم عاشورا اور یہود کا Yom Kippur ایک ہی روز واقع ہوئے ہوں گے، کیا اب بھی ایسا ہوتا ہے؟ کیا یوم عاشورا کا روزہ رکھ لیا جائے اور بہ وجوہ دوسرے دن کے روزے کے بجائے فدیہ ادا کردیا جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟

محرم کے بغیر عورت کا سفر ِ حج

میری سالی (بیوی کی سگی بہن) جو بیوہ ہے، اس کا کوئی لڑکا بھی نہیں ہے، اس کے بھائی کا بھی کافی عرصے پہلے انتقال ہوچکا ہے، اس کی تمنا اور دلی خواہش فریضۂ حج ادا کرنے کی ہے، لیکن کسی محرم کا ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک اداے حج سے محروم ہے۔ اس سال ہم میاں بیوی کا حج پر جانے کا ارادہ ہے۔ ابھی فارم بھرے جانے ہیں ۔ میں چاہتا ہو ں کہ اپنی سالی کو بھی اپنی بیوی کے ساتھ حج کے لیے لے جاؤں ۔ آپ سے استدعا ہے کہ بہ راہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتانے کی مہربانی فرمائیں کہ کیا وہ ہمارے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟

کیا عورت دوران ِ عد ّت حج کے لیے جاسکتی ہے؟

میاں بیوی نے حج کے لیے فارم بھرا تھا اور اس کی منظوری بھی آگئی تھی، لیکن اچانک شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اب بیوی عدت میں ہے۔ کیا وہ اس حالت میں کسی محرم کے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟

مسجد نبویؐ میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی فضیلت؟

برصغیر سے حج کے لیے سفر کرنے والوں میں اکثر عازمین پہلی مرتبہ سعودی عرب پہنچتے ہیں ۔ اتنے لمبے سفر کے بعد سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ کے ساتھ مدینہ منورہ کی زیارت اور مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنے کا شرف بھی حاصل کرلیں ۔ اس لیے حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے چالیس روزہ سفر کے دوران مدینے میں بھی آٹھ، دس دن قیام کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مسجد نبویؐ میں چالیس نمازیں پڑھنے کی فضیلت پر مشتمل ایک حدیث بیان کی جاتی ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر ہر شخص مسجد نبویؐ میں تکبیر تحریمہ کے ساتھ چالیس نمازیں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی اصل کیا ہے؟ اگر یہ حدیث مستند اور صحیح ہے تو کیا ایسے موقعے پر اگر کسی شرعی عذر کی بنا پرکسی خاتون کی کوئی نماز رہ گئی تو وہ اس فضیلت کو کیسے حاصل کرے گی؟ چالیس نمازوں کی تکمیل کے لیے مدینے میں رکنے سے قیام اور دوسرے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے۔

غیر مسلم کو آب زمزم اور کھجور دینا

میرے ملاقاتیوں میں بہت سے غیر مسلم بھی ہیں ۔ وہ عید، بقرعید اور دوسرے مواقع پر آتے رہتے ہیں ۔ امسال میں الحمد للہ حج پر جارہا ہوں ۔ واپسی پر وہ ملاقات کرنے اور مبارک باد دینے ضرور آئیں گے۔ بہ راہ کرم یہ بتائیں کہ کیا انھیں آب زمزم اور کھجور بہ طور تحفہ دیا جاسکتا ہے؟

کیا ایک قربانی گھر کے تمام افراد کے لیے کافی ہے؟

اگر ایک گھر میں کئی صاحب ِ نصاب افراد ہوں ، مثلاً شوہر بھی صاحب نصاب ہو، بیوی کے پاس اتنے زیورات ہوں جو نصاب تک پہنچتے ہیں ، ان کے بیٹے بھی ملازمت یا تجارت کی وجہ سے اتنا کما رہے ہوں کہ وہ صاحب نصاب ہوں ، اگرچہ ان کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو اور وہ والدین کے ساتھ رہتے ہوں ۔ تو کیا ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے یا گھر میں صرف ایک قربانی کافی ہے؟