جہری نماز تنہا پڑھنے کی صورت میں بہ آواز بلند قرأت
کوئی شخص کسی جگہ اکیلا ہے، جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے کوئی دوسرا شخص وہاں نہیں ہے تو کیا اس صورت میں وہ شخص فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں اونچی تیز آواز سے قرأت کرسکتا ہے؟
کوئی شخص کسی جگہ اکیلا ہے، جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے کوئی دوسرا شخص وہاں نہیں ہے تو کیا اس صورت میں وہ شخص فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں اونچی تیز آواز سے قرأت کرسکتا ہے؟
لوگ فجر کی نماز میں جماعت ہوتے ہوئے وہیں سنتیں پڑھتے رہتے ہیں ، جب کہ فرائض پر سنتوں کو ترجیح دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ بہ راہ کرم اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں ۔
میں اٹھاسی (۸۸) سال کا بوڑھا ہوں ۔ ویسے تو اچھا ہوں ، لیکن دونوں گھٹنوں میں درد رہتا ہے، جس سے زمین پر بیٹھ نہیں پاتا ہوں ۔ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہوں ۔ افاقے کی صورت میں کھڑے ہوکر پڑھ لیتا ہوں ۔ مرض کی تکلیف سے مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتا ہوں ۔ مغرب بعد سورۂ یٰسین، سورۂ واقعہ اور سورۂ ملک پڑھنے کا معمول ہے۔ بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا میں مغرب کی نماز کے فوراً بعد عشاء کی نماز پڑھ لیا کروں ، یا ان وظائف کے بعد پڑھا کروں ؟
آج کل موبائل کا رواج بہت عام ہوگیا ہے اور ان میں طرح طرح کی رنگس ٹونس (Ring Tones)ہوتی ہیں ۔ بارہا ایسی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ دورانِ نماز باجماعت کسی مصلّی کا موبائل بجنے لگا اور کافی دیر تک بجتا رہا۔ اس سے اس نمازی کے ساتھ دیگر نمازیوں کی بھی توجہ بٹتی ہے اور ان کے خشوع و خضوع میں خلل پڑتا ہے۔ مسجدوں میں موبائل بند کرنے کی ہدایات آویزاں کی جاتی ہیں ۔ مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی نمازی اپنا موبائل بند کرنا بھول جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا موبائل بجنے لگے تو وہ کیا کرے؟ کیا اپنی نماز توڑ کر موبائل بند کرے، پھر نماز میں شامل ہو یا اپنی نماز جاری رکھے اور موبائل بجنے دے؟ یہ سوال پوچھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی، کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ بعض حضرات اپنی نماز میں مشغول رہتے ہیں اور ان کا موبائل بجتا رہتا ہے۔
میں نے اپنے اندازے سے طے کیا تھا کہ میری نمازیں دس سال تک قضا ہوئی ہیں ۔ میں احتیاطاً گیارہ سال سے قضائے عمری کی نمازیں ادا کر رہا ہوں ۔ کیا میں اب سمجھ لوں کہ میری چھوٹی ہوئی نمازیں ادا ہوگئیں ؟ نیز یہ بھی بتلائیے کہ نماز کتنی عمر میں فرض ہوتی ہے؟
الحمد للہ ہمارے گھر ہفتہ واری اجتماع ہوتا ہے، جس میں ہر مسلک کی بہنیں آتی ہیں ، جو الحمد للہ بہت مخلص ہیں ۔ نماز کے تعلق سے چند مسائل ایسے درپیش ہیں ، جنھیں چند بہنیں ، جو اہلِ حدیث مسلک سے ہیں ، ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ایک مسئلہ نماز میں عورت کے ستر کا ہے۔ آیا پیر، ستر میں ہے یا نہیں ؟ ان بہنوں کا کہنا ہے کہ نماز میں پیر کا ڈھانپنا فرض ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کا۔ جس میں خاص طور پر ہم عورتیں سجدہ سمٹ کر کرتی ہیں اور ہم اس کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ پردہ کی مناسبت سے یہ زیادہ صحیح ہے۔ لیکن ہم اس تعلق سے کسی حدیث کی وضاحت نہیں کرپاتے اور فقہ کی کتاب میں بھی اس تعلق سے حدیث نہیں ہے۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے ایک کیسٹ میں نے سنی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ عورتوں کے لیے سمٹ کر سجدہ کرنا افضل ہے۔ یہ کیسٹ شاہ بلیغ الدین صاحب کی تھی۔ ہماری یہ بہنیں بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیتی ہیں ’’نماز اسی طرح پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ بہ راہ کرم اس سلسلے میں ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔
بعض عورتیں فرض نماز بھی بیٹھ کر پڑھتی ہیں ۔ نماز بیٹھ کر پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں ۔ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے کیا زیادہ ثواب ملتاہے؟
کیا ہم عورتیں نماز ِ تہجد مسجد میں امام کے پیچھے پڑھ سکتی ہیں ؟
ہم عشاء میں نماز وتر تین رکعت پڑھتے ہیں ۔ سنا ہے ایک سے دس رکعت تک نماز وتر پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟ کیا ایک رکعت وتر بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
شب معراج اور شب برأت میں مخصوص طریقے سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ قل ھو اللّٰہ احد یا دوسری سورتیں ہر رکعت میں مخصوص تعداد میں پڑھی جاتی ہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے؟