نیک و بد میں حقیقی امتیاز کیا ہے؟

سوال: میرے ذہن میں دوقسم کے انسانوں کا خیال آتاہے۔ خیال یوں ہی نہیں آتابلکہ واقعات کو دیکھ کرآتاہے۔ایک شخص باجماعت نماز اداکرتاہے، روزے رکھتاہے اور بظاہر شرعی حدود میں رہتاہے لیکن آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ یتیم کے مال پر خود غرضی سے ہاتھ ڈالتاہے، ایک بے کس بیوہ کو لوٹتاہے، ستاتاہے، … Read more

علم غیب کی کنجیاں

سورۂ لقمان کی آخری آیت میں یُنَزِّلُ الْغَیْثَ (وہی بارش برساتا ہے) کی موجودگی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ اس آیت میں دوسری جو باتیں مذکور ہیں ان کا تعلم علم اور ادراک سے ہے (عِلْمُ السَّاعَۃِ، یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ، مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ) بارش کا برسانا تو فعل سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ کی صفات بھی علم اور خبر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ پھر اس آیت میں ایک عمل کا ذکر اور وہ بھی علم الساعۃ اور علم الارحام کے درمیان، کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اس الجھن کو دور فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں ۔

ایک فرقہ کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے

ایک حدیث میرے مطالعہ میں آئی جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، بقیہ لوگ جہنمی ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث پڑھ کر میں بہت تشویش میں مبتلا ہوگیا ہوں ۔ کیا امت کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور صرف چند لوگ جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہاں ایک مولانا صاحب سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ حدیث کا اتنا حصہ تو صحیح ہے جس میں امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے کی بات کہی گئی ہے۔ لیکن اس کا اگلا حصہ جس میں صرف ایک فرقے کے جنتی اور دیگر فرقوں کے جہنمی ہونے کی بات کہی گئی ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ جن روایتوں میں یہ الفاظ ہیں ان کی سندیں ضعیف ہیں ۔
بہ راہِ کرم اس کی وضاحت فرما دیں ۔ کیا مولانا صاحب کی بات صحیح ہے؟

گم راہ فرقے اور سزائے جہنم

ایک سوال کے جواب میں آپ نے ’ایک فرقے کو جنتی اور دیگر فرقوں کو جہنمی بتانے والی حدیث صحیح ہے‘ کے زیرِ عنوان جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ الجھن پیدا کر رہا ہے۔ آپ نے جو احادیث تحریر فرمائی ہیں ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ ایک فرقہ ہی جنت میں جائے گا، باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے، لیکن آگے آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ تمام فرقے دین سے خارج نہیں ہیں ۔‘‘ پوچھا گیا سوال صاف نہیں ہوا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جن روایتوں میں یہ زائد جملہ ہے ’’صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، دیگر تمام فرقے جہنمی ہوں گے‘‘ وہ ضعیف ہیں ۔ اسی وجہ سے انھیں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں نقل نہیں کیا ہے۔
یہ بہتر تہتر فرقوں کا چرچا کچھ جماعتوں اور مسلکوں میں عام ہو رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی روٹی پر دال کھینچ رہا ہے۔ اس لیے التماس ہے کہ اس حدیث کے سلسلے میں ہونے والے اشکالات دور فرمائیں ۔

ذکرِ رسول ﷺ میں احتیاط

میں ایک مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیتا ہوں ۔ ربیع الاوّل کے مہینے میں میں نے ایک موقع پر اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پرروشنی ڈالی ۔ میں نے بیان کیا کہ مکی دور میں مشرکین نے آپ ؐ کوطرح طرح سے ستایا اور تکلیفیں پہنچائیں ، یہاں تک کہ آپؐ کی جان کے بھی درپے ہوئے۔ میرے پیش نظر سورۃ الانفال کی یہ آیت تھی:
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ
(الانفال۳۰)
’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیر یں سوچ رہے تھے کہ تجھے قیدکردیں یا قتل کرڈالیں یا جلا وطن کردیں ۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہا تھا اوراللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔
دورانِ تقریر میں نے ایک جملہ یہ بھی کہہ دیا کہ کفارِ مکہ چاہتے تھے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نماز کے بعد ایک صاحب نے مجھے ٹوکا کہ ایسے جملے نہ استعمال کیجئے۔ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے ، جوکسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے۔
بہِ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا اس جملے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے؟

بے سند اقوال

ادبی کتابوں میں کئی مقولے اورعبارتیں باربار نظرآتی ہیں 
(۱) الشعراء تلامیذ الرحمٰن (شعرا رحمٰن کے شاگرد ہیں ۔)
(۲) یجوزللشعراء ما لایجوزلغیرھم(شعرا کے لیے وہ کچھ جائز ہے جو دوسروں کے لیے جائز نہیں  ہے۔)
(۳) وللہ خزائن تحت عرشہ ومفاتیھاألسنۃ الشعراء(اللہ کے عرش کے نیچے خزانے ہیں اور ان کی کنجیاں شعرا کی زبانیں  ہیں ۔)
بہ راہِ کرم یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ کیا یہ احادیث کے ٹکڑے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پوری حدیثیں کیا ہیں اوران کی سند ی حیثیت کیا ہے؟اگر یہ لوگوں کے اقوال ہیں تو ان حضرات کا مبلغ علم کیا ہے؟

رفعِ مسیح ؈ کی کیفیت

رفع مسیح الی السماءکی تفسیر میں آپ نےقدیم مفسرین سے اختلاف کیا اور رفع کے مفہوم کو ابہام میں ڈال دیا۔وضاحت کرکے تسلی بخش جواب تحریر فرمائیں ۔

تفہیم القرآن جلد ا، صفحہ۴۲۱:’’پس جو چیز قرآن کی روح سے زیادہ مطا بقت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ عیسیٰ ؈ کے رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی۔‘‘
کیا یہ مسئلہ قرآنی لحاظ سے مجمل ہے؟ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں اگر قتل جسم کی تصریح ہے تو اسی ایک جملہ کے ایک جز رَفَعَہٗ میں کون سا اجمال آگیا؟بصورت دیگر انتشارِ ضمائر لازم نہ آئے گا جو معیوب ہے؟یہاں رفع جسم سے کون سا قرینہ مانع ہے جب کہ احادیث رفع جسمانی ہی روایت کر رہی ہیں تو یہاں کیوں رفع جسم مراد نہ ہو؟ پھر اجماع اُمت بھی اس پر منعقد ہوچکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ متفق علیہ مسئلے کو قرآن کی روح کے لحاظ سے مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جائے؟ پھر الفاظ بھی ایسے مؤکد کہ قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت۔