حدیث لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ ابْنُ النَّبیِ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَبِیّاًسے قادیانیوں کا غلط استدلال

اسی طرح قادیانی حدیث لَوْعَاشَ اِبْراھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا({ FR 1821 }) ’’اگر رسول اﷲؐ کے صاحب زادے ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے،‘‘ سے بھی امکان نبوت کے حق میں استدلال کرتے ہیں ۔ براہِ کرم ان دلائل کی حقیقت واضح فرمائیں ۔

کیامرزائی یا قادیانی کہنا تنابز بالا لقاب ہے؟

آپ کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت ہمیشہ جماعت احمدیہ کو’’مرزائی جماعت‘‘یا’’قادیانی جماعت‘‘ کے نام سے موسوم کرتی ہے۔حالاں کہ یہ امر دیانت کے بالکل خلاف ہے کہ کسی کو ایسا نام دیا جائے جو اس نے اپنے لیے نہیں رکھا۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اپنی جماعت کا نام’’جماعت احمدیہ‘‘ رکھا ہے اور ان کی جماعت کے افراد بھی اپنے آپ کو’’احمدی‘‘ کہتے ہیں ۔مگر ان کے مخالفین تعصب کی وجہ سے انھیں ’’مرزائی‘‘یا’’قادیانی‘‘ پکارتے ہیں ۔کیا دین اسلام میں یہ جائز ہے؟اگریہ جائز ہے تو کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ آپ کی جماعت کے افراد کو’’مودودیے‘‘ کہا جائے۔اگر آپ یہ پسند نہیں فرماتے تو پھر آپ اور آپ کی جماعت دوسرو ں کے لیے ایسا کیوں پسند کرتی ہے؟
واضح رہے کہ آپ نے ترجمان القرآن مارچ، اپریل، مئی ۱۹۵۱ کے صفحہ نمبر۱۴۶پر تحریر فرمایا ہے:
’’میں اپنی حد تک یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے میں نہ تأمل ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا،بشرطیکہ میری غلطی دلائل سے ثابت کی جائے نہ کہ سب وشتم سے۔‘‘

لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے معنی اور قادیانیوں کا معاملہ

قرآن کہتا ہے: لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ( البقرہ:۲۵۶) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
کیا ایران میں بہائیوں کا استیصال اس آیت کے خلاف نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کیوں ؟ کیا پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگامے اس آیت کے خلاف نہ تھے؟ اگر نہ تھے تو کیوں ؟

مسئلہ تقدیر

مشکٰوۃ باب الایمان بالقدر میں ذیل کی متفق علیہ حدیث وارد ہے:
إِنَّ خَلْقَ أَحَدِكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ… ثُمَّ يُبْعَثُ إِلَيْهِ المَلَكُ فَيُؤْذَنُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَكْتُبُ: رِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَعَمَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ…({ FR 2001 })
’’یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اُس کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے… پھر اﷲتعالیٰ اُس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتیں دے کر بھیجتا ہے۔چنانچہ وہ اس کے عمل، عمر،رزق اور شقاوت وسعادت کے بارے میں نوشتہ تیار کردیتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔‘‘
اب سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سارے معاملات کا فیصلہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو پھر آزادی عمل اور ذمہ داریِ عمل کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟عام طور پر ایسی ہی احادیث سن لینے کے بعد لوگ ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں ۔

مسئلۂ تقدیر اور انسان کے ارادۂ عمل کی آزادی

مجھے آپ کی تصنیف ’’مسئلۂ جبر و قدر‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے نہایت ہی علمی انداز میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جبر وقدر کے جو مبحث ملتے ہیں ، ان میں قطعاً کوئی تناقض نہیں ۔ اس معاملے میں میری تو تشفی ہوچکی ہے مگر ذہن میں پھر بھی دو سوال ضرور اُبھرتے ہیں ۔ایک یہ کہ کیا انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے اور مستقبل میں جو واقعات وحوادث اسے پیش آنے والے ہیں ،وہ ازل سے ہی مقرر اور معین ہیں اور اب ان کے چہرے سے صرف نقاب اٹھانا باقی رہ گیا ہے؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتِ حال انسان کے ارادۂ عمل کی آزادی کے ساتھ کیسے میل کھا سکتی ہے؟

ایمان اور اسلام کے لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں

ایک شخص غیر اﷲ مثلاً بادشاہ یا حکومت باطلہ کی اطاعت کرتا ہے اور اعتقاداً بھی اسی کو حق سمجھتا ہے۔ دوسرا شخص اعتقاداً تو اس کی بندگی نہیں کرتا لیکن عملاً اس کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے لیے مجبوری کا عذر پیش کرتا ہے۔ کیا ان دونوں کے عمل میں کوئی تفریق کی جا سکتی ہے؟آپ کی تفسیرالٰہ وربّ کے لحاظ سے تو دونوں ایک ہی درجے میں ہوئے، حالاں کہ دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔

ایمان اور عمل کا تعلق

ائمۂ سلف میں اس مسئلے کے بارے میں بہت اختلاف رہا ہے کہ عمل صالح ایمان کا جز ہے یانہیں ۔میں نے قرآن وحدیث وسیرت کا بھی مطالعہ کیا ہے،اپنی حد تک ائمہ کے اقوال واستدلال کو بھی دیکھا ہے اور اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے بھی رجوع کیا ہے، لیکن اس سوال کا شافی جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں ۔مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے محض اختلافات کو ہوا دینے کے لیے اس مسئلے کو چھیڑا ہے، لیکن میرا مقصد سواے تحقیق واطمینان کے کچھ نہیں ہے۔

کافر کے عملِ صالح پر اجر کا معاملہ

گزارش ہے کہ اس بندئہ عاجز کے ایک مخلص دوست جو دینی خیال کے آدمی ہیں ، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کوئی نیک عمل کرے، مثلاً مظلوم کی حمایت، غریب کی امداد، مسافر کی خدمت، کسی بیمار کی تیمارداری، تو وہ اپنے رب کے ہاں ضرور اجر پائے گا۔ آخرت کی اجارہ داری مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ۔ اللّٰہ رب العٰلمین ہے، صرف مسلمانوں کا خدا نہیں ۔ ان کا گمان ہے کہ ہر مذہب کا پیرو مثلاً عیسائی، ہندو، بدھ وغیرہ، اگر خالص نیت سے نیکی کرے، یعنی ریا کاری مقصود نہ ہو تو وہ آخرت میں جزا پائے گا۔ میں ان سے متفق نہیں اور قرآن مجید کی بعض آیات کا حوالہ دیتا ہوں کہ ایمان لانا بھی قبولیت عمل کے واسطے شرط ہے۔ مثلاً سورئہ النحل:۹۷۔ سورئہ طٰہٰ:۱۱۲۔ سورئہ الانبیاء:۹۴۔ مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ میں نے ان سے عرض کیا تمام علما اس بات پر متفق ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا علما عموماً انتہا پسند ہیں ۔ پھر وہ آپ کے متعلق کہنے لگے کہ مولانا مودودی صاحب متوازن ذہن کے عالم ہیں اور ان کی سوچ انتہا پسندانہ نہیں ۔ آپ اس مسئلے کا فیصلہ ان سے پوچھ دیجیے۔ چنانچہ یہ عریضہ ارسال خدمت ہے۔ وضاحت کے لیے ایک اور بات لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ وہ یہ کہ اگر ایک فاسق مسلمان نیکی کرے تو وہ قبول اور وہی نیکی یا اس سے بہتر نیکی اگر ایک غیر مسلم کر ے تو وہ مسترد۔ اللّٰہ ایسا جانب دار نہیں ہوسکتا یہ اس کی شانِ بندہ پروری کے خلاف ہے۔

مسلم سوسائٹی میں منافقین

اسلام کے خلاف دو طاقتیں ابتدا ہی سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں ۔ ایک کفر اور دوسری نفاق۔ مگر کفر کی نسبت منافق زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے۔ کیوں کہ وہ مارِآستین ہے جو ماتھے پر اُخوت اور اسلام دوستی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کافر اور منافق دونوں ہی بالآخر جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ، لیکن منافق کی سزا کچھ زیادہ ہی’’بامشقت‘‘ بتائی گئی ہے ’’بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘({ FR 2170 }) (النساء:۱۴۵) اسی گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یوں دوٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ’’اے پیغمبر! ان منافقوں کے حق میں تم خواہ دعاے مغفرت کرو یا نہ کرو(برابر ہے کیوں کہ) چاہے تم ستر مرتبہ ہی مغفرت کے لیے دعا کیوں نہ کرو، تب بھی اﷲ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘({ FR 2171 }) (التوبہ:۸۰) کم وبیش ساٹھ مختلف علامات اور امتیازی نشانیاں منافقین کی اﷲ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں ،جن کی روشنی میں ہم پاکستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو جب دیکھتے ہیں جو مسلمان کہلاتی ہے تو اکثریت بلامبالغہ منافقین کی نظر آتی ہےــــــــگناہ گار مسلمان اس گروہ منافقین میں شامل نہیں ــــــــ مگر گناہ گار مسلمان وہ ہے جس سے برائی کا فعل باقتضائے بشریت جب کبھی سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً ہی خدا اور قیامت کا خیال اسے آجاتا ہے۔سچے دل سے توبہ اور پشیمانی کا اظہار کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔منافق اس کے خلاف اپنے برے کاموں پر واقعی نادم ہونے کے بجاے دانستہ کیے جاتا ہے۔
آپ کی نگاہ اور مطالعہ زیادہ وسیع ہے،براہ کرم آپ اپنی راے بیان فرمایئے کہ موجودہ مدعیان اسلام میں منافقین اور گناہ گار اور متقی مسلمانوں کا تناسب اندازاًکیا ہے؟
دوسرا سوال گروہ منافقین کے ساتھ مسلمانوں کے طرز عمل کا ہے۔قرآن کریم کی رو سے یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں : ’’اور یہ منافق قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھاری جماعت میں ہیں ۔حالاں کہ وہ تم میں سے نہیں ۔‘‘({ FR 2582 })(التوبہ:۵۶) صرف یہی نہیں کہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے دشمن ہیں :’’یہ منافق تمھارے دشمن ہیں ،ان سے خبر دار رہو۔‘‘({ FR 2172 }) (المنافقون:۴)
چوں کہ یہ دشمن ہیں لہٰذا حکم ہوتا ہے کہ ان دشمنان دین سے کامل علیحدگی اختیار کرلو۔ان منافقوں میں سے اپنے ساتھی اور دوست نہ بنائو: ’’اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست سمجھونہ مدد گار۔‘‘({ FR 2173 })(النساء:۸۹)
اس بائیکاٹ میں یقیناً یہ بات بھی شامل ہے کہ منافقوں سے رشتے ناتے نہ کیے جائیں ۔ علیحدگی کی ایک اور صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’اے نبی!اﷲ سے ڈرو اور ان کافروں اور منافقوں کی کسی بات کی پیروی نہ کرو۔‘‘({ FR 2174 }) (الاحزاب:۱) یعنی نہ تو نماز میں منافقوں کی پیروی کی جائے اور نہ ہی سیاسی قیادت قبول کی جائے وغیرہ۔ بائیکاٹ کا اظہار ایک اور طریقے سے بھی کرنا ضروری ہے۔ ’’اور ان منافقوں میں سے اگر کوئی مرجائے تو کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو،اور نہ ہی اس کی قبر پر دعاے مغفرت کے لیے کھڑے ہو۔‘‘({ FR 2175 })( التوبہ:۸۴)
بحیثیت ایک مسلمان کے خود آپ کا طرز عمل اس علیحدگی کے بارے میں کیا ہے؟کیا مسلمانوں کو (جو اقلیت میں ہیں )منافقوں سے(جن کی اکثریت ہے) قطع تعلق کرلینا چاہیے یا کچھ اتمام حجت کی گنجائش ہے؟

’’گناہ گار مومن ‘‘اور ’’نیکوکار کافر‘‘ کا فرق

آج کل ایف ایس سی کی ایک طالبہ نہایت ہی ذہین مسیحی لڑکی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی ہے۔ وہ تقریباً روزانہ مجھ سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات کرتی ہے۔ میں بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی کوشش کرتا ہوں بحمداللّٰہ کہ میں نے دین اسلام کے بارے میں اس کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔
لیکن ایک دن اس نے میرے سامنے ایک سوال پیش کیا جس کا جواب مجھے نہ سوجھ سکا۔ ازاں بعد میں نے آپ کی تصانیف سے بھی رجوع کیا مگر تاحال کوئی شافی اشارات وہاں سے نہیں مل سکے۔
میری مسیحی شاگرد کہنے لگی کہ میں نے میٹرک میں اسلامیات کے کورس میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو وہ کچھ عرصہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخرکار ضرور جنت میں چلا جائے گا مگر کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ پھر وہ کہنے لگی آپ ہمیں بھی کافر ہی سمجھتے ہیں ۔ کوئی عیسائی خواہ وہ کتنا ہی نیکوکار ہو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دوزخ ہی میں جائے گا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟