معراج کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ کو کیا تعلیمات دی گئی تھیں ؟

واقعہ اسرا و معراج کے متعلق جناب کے حالیہ مضمون کو پڑھ کر ذہن میں مندرجہ ذیل خیالات پیدا ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ جناب اس سلسلے میں مناسب راہ نمائی فرمائیں گے۔
جناب نے اس واقعہ کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد آں حضرتﷺ کو کائنات کے باطنی نظام کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اُن نشانیوں کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا جنھیں قرآن حکیم اٰیٰتِ رَبِّہِ اِلْکُبْریٰ({ FR 2569 }) (النجم:۱۸)کہتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتﷺ کو اپنی بارگاہ میں طلب کرکے اسلامی معاشرے کے قیام کے بارے میں چند بنیادی ہدایات دینا چاہتا تھا۔
بلاشبہہ قرآن حکیم سے معراج کے یہ دونوں مقاصد ثابت ہیں ۔ مگر قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اگر پہلا مقصد آں حضرتﷺ کو عظیم نشانیاں دکھانا ہی تھا تو یہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے تک حاصل ہوچکا تھا۔ حضورﷺدوسرے ملائکہ کے علاوہ حضرت جبریل امینؑ کو دوبار ان کی اصل صورت میں ملاحظہ کرچکے تھے، انبیاے کرام سے تعارف ہوگیا تھا، جزا و سزا کی کئی صورتیں دکھائی جا چکی تھیں ، بیت المعمور، جنت الماویٰ اور دوزخ جیسے مقامات کا مشاہدہ بھی مکمل ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس غرض کے لیے اب عالم شہادت کی سرحد کو عبور کرکے عالم غیب میں قدم آگے بڑھانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جہاں تک دوسرے مقصد کا تعلق ہے وہ بارگاہِ جلال میں حاضر ہوئے بغیر بھی پورا ہوسکتا تھا۔ جب سارا قرآن سرزمین عرب ہی میں آں حضرتؐ پر نازل ہوسکتا تھا تو ان ہدایات کے نازل ہونے میں کیا چیز مانع تھی۔
دراصل ان دونوں مقاصد کے علاوہ معراج النبی کا ایک تیسرا مقصد بھی قرآن و حدیث ہی سے ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرت ﷺ کو مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا کر ان مخصوص اذواق و مواجید اور اسرار و رموز کی تعلیم دینا چاہتا تھا جو الفاظ میں نہیں بیان کیے جاسکتے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى({ FR 2161 }) (النجم:۱۰) کے الفاظ اسی مقصد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جو کچھ وحی کیا گیا اسے الفاظ میں کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ ہم اس مخصوص وحی کو وحی غیر متلو کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں اور اس میں ان علوم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو حضرت جبریل امینؑ کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اسی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی صاحبِ دل نے کہا تھا: ع
سِرّما اَوحیٰ نہ گنجد در ضمیرِ جبرئیل کشفِ اسرارِ لدُّنی کے کندامُّ الکتاب ({ FR 2159 })
یہ ظاہر ہے کہ وحیِ جَلی اور اس مخصوص وحی کی تعلیم میں نہ تو کوئی تضاد ہوسکتا ہے اور نہ وِحی جَلی پر وحیِ خَفی کو ترجیح دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتؐ کے ان مخصوص اذواق اور احوال کی توفیق جزوی طور پر آں حضرتؐ کے بعض امتیوں کو نصیب کر دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ سخی اگر سخاوت نہ کرے تو وہ سخی نہیں کہلا سکتا۔ حضرت ابوبکرؓ کے سینے میں ایک رازِ الٰہی کا راسخ ہو جانا اور اسی کی بنا پر آپ کا دیگر اصحابِ رسول پر فضیلت حاصل کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جس چیز کو اللّٰہ کے رسول نے ’’راز‘‘ قرار دیا ہو اسے وہ کسی اور شے پر محمول کرے۔
جہاں تک معراج کے موقع پر دیدارِ الٰہی کے مسئلے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ لوگ اس بارے میں فضول بحثوں میں اُلجھ گئے ہیں ۔ جب یہ ثابت ہے کہ عالم آخرت میں مومنین دیدار الٰہی کریں گے تو عالمِ غیب میں آں حضرتؐ کے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حضرت عائشہؓ لَاتُدْرکُہُ الْاَبْصَارُ({ FR 2570 }) (الانعام:۱۰۳) کے الفاظ سے بچشم سردیدارِ الٰہی کی نفی فرما رہی ہیں جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب یا عالم آخرت سے۔ جناب خود بھی تفہیم القرآن میں وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دیدار کا فعل آنکھ نامی ایک آ لے ہی سے ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے قلب یا قلب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی دیدار کی صورت پیدا کر دینے پر قادر ہے: ع
ایں خاک بے ادب رانسبت باوچہ باشد اماچو او نوازد کس رازباں نہ باشد({ FR 2160 })

معراج رات کو ہوئی تھی یا دن کو؟

پچھلے دنوں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ مختلف الخیال لوگوں میں مقصد کی یکسانیت اور لگن تھی۔ درس قرآن اور نماز باجماعت کا انتظام تھا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے علما حضرات وہاں بھی فروعی مذہبی اختلافات میں مبتلا تھے۔ ہماری بیرک میں تین الگ الگ جماعتیں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث حضرات کراتے تھے۔ میں نے دوستوں سے مشورہ کیا کہ علما حضرات کو مل کر ایک جماعت پر رضا مند کیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے ایک دیوبندی عالم کے پاس گئے۔ انھیں میرے متعلق علم تھا کہ یہ جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ ابھی تمہیداًکچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ انھوں نے آپ کے بارے میں اعتراضات شروع کر دیے کہ مولانا مودودی صاحب نئی نئی باتیں نکال لاتے ہیں ، کسی پچھلے ترجمان میں مولانا نے لکھا ہے کہ واقعۂ معراج دن کی پوری روشنی میں رُونما ہوا تھا، حالانکہ قرآن کے بیان کے مطابق یہ واقعہ رات کے کسی حصے میں پیش آیا اور حدیث سے بھی ثابت ہے کہ (واقعۂ) معراج عشا اور فجر کے درمیان ہوا تھا،میں نے اس بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ چنانچہ اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ({ FR 2278 }) والا مقصد تو باتوں ہی میں ختم ہوگیا اور گفتگو آگے نہ بڑھ سکی۔
جیل سے واپسی پر میں نے ترجمان کے پچھلے پرچے دیکھے۔ جنوری ۱۹۷۷ء کے شمارے میں صفحہ۱۰ پر آپ کی تحریر دیکھی:
’’… رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ مشاہدہ اندھیرے میں ، یا مراقبے کی حالت میں ، یا خواب میں ، یا نیم بے داری کی حالت میں نہیں ہوا تھا، بلکہ صبح روشن طلوع ہوچکی تھی، آپ پوری طرح بے دار تھے، کھلی فضا میں اور دن کی پوری روشنی میں اپنی آنکھوں سے یہ منظر ٹھیک اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح کوئی شخص دنیا کے دوسرے مناظر دیکھتا ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا اعتراض اسی عبارت پر تھا۔ بہتر ہو کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں ۔

رسول اللّٰہ ﷺ کا شَقِّ صدر

سنا گیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا تھا اور اس کو تمام آلائشوں سے پاک کیا گیا تھا،تاکہ نبوت کے تقاضے کو پورا کرسکیں اور معصومیت کی صفت پیدا ہوجائے۔د وسرے لفظوں میں آپ کا دل زیادہ روشن ہوجائے، اچھے اور پاکیزہ خیالات دل میں آئیں اور گناہ کے خیالات نہ آنے پائیں ۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

عبد المطلب کے بعد آپ کی پرورش

محمود عباسی صاحب نے تحقیق مزید کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں ۔ براہ کرم اس امر پر روشنی ڈالیے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے۔ اُلجھن یہ ہے کہ تمام سیرت نگار تو آں حضورؐ کے دادا کی وفات کے بعد ابوطالب کو حضورﷺ کا سرپرست تسلیم کرتے ہیں ، مگر محمود عباسی کچھ اور ہی داستان بیان کر رہے ہیں ۔
صفحہ۱۲۵۔ عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے نو بیٹے زندہ تھے۔ جن میں سب سے بڑے زبیر تھے، وہی قریش کے دستور کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے اور انھی کو عبدالمطلب نے اپنا وصی بھی مقرر کیا تھا۔
وَالزُّبَیرُ۔ وَکَانَ شَاعِراً شَرِیفاً وَ إِ لَیہِ أَوصٰی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ({ FR 1702 })
صفحہ۱۲۵۔ زبیر و ابوطالب اور عبداللّٰہ والد ماجد آں حضرت ﷺ یہ تینوں ایک ماں سے حقیقی بھائی تھے۔
صفحہ ۱۲۵۔۱۲۵۶۔ قدیم ترین مؤرخ ابوجعفر محمد بن حبیب متوفی۲۴۵ھ مؤلف کتاب المحبَّر نے الحکام من قریش ثم من بنی ھاشم کے عنوان کے تحت قریش کے تمام خاندانوں میں سے جو لوگ اپنے وقت میں سردار اور حاکم رہے ان کی فہرست درج کی ہے۔ بنی ہاشم میں عبدالمطلب کے بعد زبیر بن عبدالمطلب ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی ابو طالب کے… نام درج کیے ہیں ۔
صفحہ۱۲۶۔ عبدالمطلب کو اپنے اس نیک صفات اور پاکیزہ خصلت فرزند (زبیر) پر فخر و ناز ہونا بجا تھا۔ مرتے وقت انھی کو جانشین کیا۔
صفحہ۱۲۶-۱۲۷۔ حلف الفضول… وہ معاہدہ و حلف ہے جو قریشی خاندانوں اور قبیلوں میں … انھی کی تحریک پر آپس میں عبداللّٰہ بن جدعان کے گھر بیٹھ کر کیا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید)
آں حضرت ﷺ اس موقع پر اپنے چچا (زبیر) کے ساتھ موجود تھے… سن شریف اس وقت آں حضور کا بروایت مختلفہ اٹھارہ سے بیس برس کا بتایا گیا ہے۔
صفحہ۱۲۸۔ اپنے دادا کے انتقال کے بعد آں حضورؐ اپنے ان ہی چچا زبیر بن عبدالمطلب کی کفالت میں رہے، انھوں نے اور ان کی زوجہ عاتکہ بنت ابی وہب بن عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم نے اپنے بچوں سے زیادہ محبت و شفقت سے آپ کی پرورش کی۔
صفحہ ۱۳۲۔ آپ اس عمر کے تھے کہ زبیر بن عبدالمطلب کی وفات کے بعد کسی دوسرے چچا اور رشتے دار کی کفالت سے مستغنی ہوچکے تھے۔

رسول اللّٰہﷺ کی صاحب زادیوں کی عمریں

تفہیم القرآن جلد ششم سورۃ الکوثر کے دیباچے میں صفحہ ۴۹۰پر ابن سعد اور ابن عساکر کے حوالے سے آپ نے حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کی یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے سب سے بڑے صاحب زادے حضرت قاسم تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینبؓ تھیں ، ان سے چھوٹے حضرت عبداللّٰہؓ تھے پھر علی الترتیب تین صاحب زادیاں ام کلثومؓ، فاطمہؓ اور رقیہؓ تھیں ۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسمؓ کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبداللّٰہؓ نے وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا ’’ان کی نسل ختم ہوگئی، اب وہ اَبْتَرْ ہیں ‘‘ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ ({ FR 2202 })
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت رقیہؓ سب سے چھوٹی صاحب زادی تھیں ۔ لیکن مشہور تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ سب سے چھوٹی تھیں ۔ نیز اس روایت کے مطابق حضرت عبداللّٰہ آل نبیؐ میں تیسرے نمبر پر تھے لیکن صاحب رحمۃ للعالمین نے تحریر کیا ہے کہ حضرت عبداللّٰہؓ بعثت نبوت کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے حضرت ابن عباسؓ سے منقول آل نبی کی ترتیب محل نظر ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
حضرت قاسم بعثتِ نبوت سے قبل پیدا ہوئے اور قبل ہی فوت ہوگئے۔ ان کے اسم گرامی کے ساتھ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تحریر کرنے سے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

ختم نُبوَّت: نوعیت اور اہمیت

اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ یہ ہے کہ محمدﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے۔ تاہم مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور قادیانی جماعت کی بعض باتیں مجھے اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔
مثلاًمرزا صاحب کا چہرہ میر ی نظرمیں معصوم اور بچوں جیسا دکھائی دیتا ہے۔کیا ایک جھوٹے نبی اور چالاک آدمی کا چہرہ ایسا ہوسکتا ہے؟ان کی پیشین گوئیاں بھی سواے آسمانی نکاح اور اسی طرح کی چند ایک خبروں کے بڑی حد تک پوری ہوئیں ۔ ان کی جماعت بھی روز بروز ترقی پر ہے اور اس میں اپنے مزعومات کے لیے بڑا جوش اور ایثارپایا جاتا ہے۔
یہ ساری چیزیں خلجان میں ڈالتی ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اطمینان قلب کی خاطر اس مسئلے کی ایسی وضاحت کردیں جس سے تردّد اور پریشانی رفع ہوجائے اور حق وباطل کے مابین واضح امتیاز قائم ہوجائے ۔

ختمِ نبوت:خاتم کے معنی

میرے ایک دوست ہیں جو مجھ سے بحث کیا کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے ان کے ایک رشتہ دار جو مرزائی ہیں ان کو اپنی جماعت کی دعوت دیتے ہیں ، مگر وہ میرے دوست ان کے سوال کا جواب پوری طرح نہیں دے سکتے۔انھوں نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود تو جواب نہ دے سکا، البتہ میں نے ایک صاحب علم سے اس کا جواب پوچھا۔ مگر کوئی ایسا جواب نہ ملا جس سے کہ میری اپنی ہی تسلی ہو جاتی۔ اس لیے اب آپ سے پوچھتا ہوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مرزائی حضرات لفظ’’خاتم‘‘ کے معنی نفی کمال کے لیتے ہیں ،نفی جنس کے نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ خاتم کا لفظ کہیں بھی نفی جنس کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔ اگرہوا ہو تو مثال کے طور پر بتایا جائے۔ ان کاچیلنج ہے کہ جو شخص عربی لغت میں خاتم کے معنی نفی جنس کے دکھا دے،اس کو انعام ملے گا۔نفی کمال کی مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ مثلاً کسی کو خاتم الاولیا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولایت اس پر ختم ہوگئی،بلکہ حقیقی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ولایت کا کمال اس پر ختم ہوا۔اقبال کے اس فقرے کو بھی وہ نظیر میں پیش کرتے ہیں : ع
آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ؔ ہے
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاں آباد میں اس کے بعد کوئی شاعرپیدانہیں ہوا،بلکہ یہ ہے کہ وہ جہاں آباد کا آخری باکمال شاعر تھا۔اسی قاعدے پر وہ خاتم النّبیین کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺپر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے نہ یہ کہ خود نبوت ہی ختم ہوگئی۔

مرزا صاحب کا دعواے نبوت:اس کی سزا میں تاخیر کی وجہ

’’ترجمان القرآن‘‘جنوری،فروری۱۹۵۱ء کے صفحہ ۳۲۶ پر آپ نے لکھا ہے کہ’’میرا تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔میرا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ…جن لوگوں کو میں صداقت ودیانت سے بے پروا اور خوف خدا سے خالی پاتا ہوں ،ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا…خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے …اور ان کا پردہ ان شاء اﷲ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔‘‘
میں عرض کردوں کہ میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے کام سے دل چسپی ہے۔میر ے مندرجۂ ذیل استفسارات اسی ضمن میں ہیں :
۱۔ یہ صرف آپ ہی کا تجربہ نہیں ،بلکہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’اﷲ تعالیٰ کاذبوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘اور’’اﷲ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔‘‘اور پھر اس قسم کے جھوٹوں پر کہ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ (الحاقہ:۴۴ ) ’’اور اگر (نبیؐ) نے خود گڑھ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی‘‘ ان کی سزا تو فوری گرفت اور وصال جہنم ہے لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقہ:۴۵-۴۶ ) ’’تو ہم اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘اس صورت میں اگر مرزا صاحب جھوٹے تھے تو کیا وجہ ہے کہ
(ا) ابھی تک اﷲ تعالیٰ نے ان پر کوئی گرفت نہیں کی؟
(ب) ان کی جماعت بڑھ رہی ہے اور مرزا صاحب کے مشن کو، جو مسلمانوں کے نزدیک گمراہ کن ہے،تقویت پہنچ رہی ہے، اور اب تو اس جماعت کی جڑیں بیرون ممالک میں مضبوط ہوگئی ہیں ۔
(ج)مرزا صاحب کے پیغام کو ساٹھ سال ہوگئے ہیں ۔ہم کب تک خدائی فیصلے کا انتظار کریں ؟فی الحال تو وہ ترقی کررہے ہیں ۔
(د) جو جماعتیں یا افراد اس گروہ کی مخالفت کررہے ہیں ،وہ کیوں اسے ترک نہیں کردیتے اور معاملہ خدا پر نہیں چھوڑ دیتے؟
۲۔صفحہ۲۴۲ پر آپ کی جماعت کے ایک جرمنی نژاد ہم درد نے برلن میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تبلیغ اسلام میں تعاون کا ذکر کیا ہے۔اگر آپ بھی ان کی تبلیغ اسلام کو صحیح سمجھتے ہیں تو پاکستان میں ان کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرتے؟

سورة النساء، آیت ۶۹ سے قادیانیوں کا غلط استدلال

قادیانی مبلغ اپنا انتہائی زور اجراے نبوت کے ثبوت پر صرف کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ مندرجہ ذیل آیت خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور انھی پر اپنے دعوے کی بنیاد رکھتے ہیں :
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا (النسائ: ۶۹)
’’ اور جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں ۔‘‘
اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان آیات میں بالترتیب چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے:انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ ان کی دانست میں ان میں سے تین درجے یعنی صدیقین، شہدا اورصالحین تو امت محمدیہ کومل چکے ہیں ، لیکن چوتھا درجہ نبی ہونا باقی تھا،اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو ملا ہے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ اگرمعیت کا مطلب یہ ہے کہ اُمت محمدیہ کے لوگ قیامت کے دن صرف مذکورہ گروہ کی رفاقت میں ہوں گے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ میں کوئی صالح، شہید اور صدیق ہے ہی نہیں ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جب آیت میں چار مراتب (گروہوں ) کا ذکر کیا گیا ہے تو پھر گروہ انبیا کے امت میں موجود ہونے کو کس دلیل کی بِنا پر مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔
آپ سے استدعا ہے کہ اس مسئلے پر اپنے رسالے میں مدلل بحث فرمائیں ، تاکہ یہ افادۂ عام کا موجب ہو۔