معراج کے موقع پر رسول اللّٰہ ﷺ کو کیا تعلیمات دی گئی تھیں ؟
واقعہ اسرا و معراج کے متعلق جناب کے حالیہ مضمون کو پڑھ کر ذہن میں مندرجہ ذیل خیالات پیدا ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ جناب اس سلسلے میں مناسب راہ نمائی فرمائیں گے۔
جناب نے اس واقعہ کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا مقصد آں حضرتﷺ کو کائنات کے باطنی نظام کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اُن نشانیوں کا مشاہدہ کرانا مقصود تھا جنھیں قرآن حکیم اٰیٰتِ رَبِّہِ اِلْکُبْریٰ({ FR 2569 }) (النجم:۱۸)کہتا ہے، اور دوسرا یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتﷺ کو اپنی بارگاہ میں طلب کرکے اسلامی معاشرے کے قیام کے بارے میں چند بنیادی ہدایات دینا چاہتا تھا۔
بلاشبہہ قرآن حکیم سے معراج کے یہ دونوں مقاصد ثابت ہیں ۔ مگر قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اگر پہلا مقصد آں حضرتﷺ کو عظیم نشانیاں دکھانا ہی تھا تو یہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے تک حاصل ہوچکا تھا۔ حضورﷺدوسرے ملائکہ کے علاوہ حضرت جبریل امینؑ کو دوبار ان کی اصل صورت میں ملاحظہ کرچکے تھے، انبیاے کرام سے تعارف ہوگیا تھا، جزا و سزا کی کئی صورتیں دکھائی جا چکی تھیں ، بیت المعمور، جنت الماویٰ اور دوزخ جیسے مقامات کا مشاہدہ بھی مکمل ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس غرض کے لیے اب عالم شہادت کی سرحد کو عبور کرکے عالم غیب میں قدم آگے بڑھانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ جہاں تک دوسرے مقصد کا تعلق ہے وہ بارگاہِ جلال میں حاضر ہوئے بغیر بھی پورا ہوسکتا تھا۔ جب سارا قرآن سرزمین عرب ہی میں آں حضرتؐ پر نازل ہوسکتا تھا تو ان ہدایات کے نازل ہونے میں کیا چیز مانع تھی۔
دراصل ان دونوں مقاصد کے علاوہ معراج النبی کا ایک تیسرا مقصد بھی قرآن و حدیث ہی سے ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آں حضرت ﷺ کو مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا کر ان مخصوص اذواق و مواجید اور اسرار و رموز کی تعلیم دینا چاہتا تھا جو الفاظ میں نہیں بیان کیے جاسکتے۔ فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰى({ FR 2161 }) (النجم:۱۰) کے الفاظ اسی مقصد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جو کچھ وحی کیا گیا اسے الفاظ میں کیوں نہیں بیان کیا گیا؟ ہم اس مخصوص وحی کو وحی غیر متلو کہنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں اور اس میں ان علوم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو حضرت جبریل امینؑ کی دسترس سے باہر ہیں ۔ اسی تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی صاحبِ دل نے کہا تھا: ع
سِرّما اَوحیٰ نہ گنجد در ضمیرِ جبرئیل کشفِ اسرارِ لدُّنی کے کندامُّ الکتاب ({ FR 2159 })
یہ ظاہر ہے کہ وحیِ جَلی اور اس مخصوص وحی کی تعلیم میں نہ تو کوئی تضاد ہوسکتا ہے اور نہ وِحی جَلی پر وحیِ خَفی کو ترجیح دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ آں حضرتؐ کے ان مخصوص اذواق اور احوال کی توفیق جزوی طور پر آں حضرتؐ کے بعض امتیوں کو نصیب کر دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ سخی اگر سخاوت نہ کرے تو وہ سخی نہیں کہلا سکتا۔ حضرت ابوبکرؓ کے سینے میں ایک رازِ الٰہی کا راسخ ہو جانا اور اسی کی بنا پر آپ کا دیگر اصحابِ رسول پر فضیلت حاصل کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جس چیز کو اللّٰہ کے رسول نے ’’راز‘‘ قرار دیا ہو اسے وہ کسی اور شے پر محمول کرے۔
جہاں تک معراج کے موقع پر دیدارِ الٰہی کے مسئلے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ لوگ اس بارے میں فضول بحثوں میں اُلجھ گئے ہیں ۔ جب یہ ثابت ہے کہ عالم آخرت میں مومنین دیدار الٰہی کریں گے تو عالمِ غیب میں آں حضرتؐ کے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حضرت عائشہؓ لَاتُدْرکُہُ الْاَبْصَارُ({ FR 2570 }) (الانعام:۱۰۳) کے الفاظ سے بچشم سردیدارِ الٰہی کی نفی فرما رہی ہیں جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب یا عالم آخرت سے۔ جناب خود بھی تفہیم القرآن میں وضاحت فرما چکے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دیدار کا فعل آنکھ نامی ایک آ لے ہی سے ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے قلب یا قلب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی دیدار کی صورت پیدا کر دینے پر قادر ہے: ع
ایں خاک بے ادب رانسبت باوچہ باشد اماچو او نوازد کس رازباں نہ باشد({ FR 2160 })