کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردے کو زندہ کردیتے تھے؟

سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ مشہو ر ہے کہ آپ کو مردے کو زندہ کردینے کا معجزہ حاصل تھا۔اس موقع پر آپ قُمْ بِاذْنِ اللہِ  فرمایا کرتےتھے۔ کیا قرآن وحدیث اس کی تصدیق کرتے ہیں ؟اگر قرآن وحدیث سے اس کی تصدیق ہوتی ہے تو مہربانی فرماکر ان امور کی وضاحت … Read more

عذابِ قبر کا انکار گم راہی ہے

یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عذاب قبر نہیں ہے۔وہ دلیل میں سورۂ یٰسین کی یہ آیت پیش کرتے ہیں  مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا۝۰ڄ ھٰذَا (آیت۵۲) ’’ہماری خواب گاہ سے ہمیں کس نے اٹھایا۔ ‘‘مہربانی کرکے اس کا جواب دیجیے۔

اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ کامفہوم

ادارہ اہل سنت وجماعت، حیدرآبادد کن کے ترجمان ماہ نامہ ’الحق‘ جلد نمبر ۱۵ شمارہ ۱۷۳ تا ۱۷۶ میں عنوان ’ربانی ہدایت‘ کے تحت  اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ  (یوسف۴۰) کے فقرۂ قرآنی کی تشریح کی گئی ہے۔ تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ اس مضمون میں لکھا گیاہے ’’لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ … Read more

سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء کی بعض آیتوں کا صحیح مفہوم

ماہ نامہ زندگی بابت ماہ شعبان ۱۴۰۴ھ مطابق جون ۱۹۸۴ء نظر سے گزرا۔ مولانا عنایت اللہ سبحانی اصلاحی کی کتاب علامہ حمیدالدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ پرتبصرہ و تنقید کو پڑھا۔ مولف کتاب نے سورۂ مریم کی آیت وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُہَا۝۰ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْـمًا مَّقْضِيًّا۝۷۱ۚ کی جو تاویل پیش کی ہے، آپ نے … Read more

عَلَیْہُ اللہَ کی توجیہ

سورۂ فتح کی آیت نمبر۱۰ کا ایک ٹکڑا یہ ہے وَمَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰہَدَ عَلَيْہُ اللہَ فَسَيُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۝۱۰ۧ ’’اورجواس عہد کو پوراکرےگا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجرعطافرمائے گا۔‘‘ غالباً پورے قرآن میں اسی مقام پرعلیہ کی ہا کو ضمہ ہے، باقی ہر جگہ اس کی ہا … Read more

سورۂ شوریٰ کی دو آیات میں ربط

سورۂ الشوریٰ کی آیت ۲۷ کا تعلق ماسبق آیت سے کیا ہے؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ آیت ۲۷ کا ترجمہ یہ ہے ’’اگر اللہ اپنے سب بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کردیتے، مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے،نازل کرتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے … Read more

بسم اللہ سے متعلق ایک سوال

یہاں ایک صاحب کہتے ہیں کہ فرمان نبویؐ موجود ہے کہ نمازویسی پڑھو، جیسی میں پڑھتا ہوں اور قرآن مجید میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سوائے سورۂ توبہ کے ہر سورہ کے پہلے موجود ہے۔ اب آپ بتائیے کہ بسم اللہ ہرسورہ کا جز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو کلام اللہ میں … Read more

قصصِ یوسف ؑ و سلیمانؑ کے بعض اشکالات

آج کل مولانا مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن میرے زیر مطالعہ ہے۔ مطالعے کے دوران سورۂ یوسف اور سورۂ نمل سے متعلق کچھ سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان کا تحقیقی، مدلل اور تشفی بخش جواب مرحمت فرمایے۔ نوازش ہوگی۔
(۱) سورۂ یوسف کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: ’’جب یوسف اپنے بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں خود پیالہ رکھوادیا اور پھر چوری کے الزام میں اسے اپنے پاس روک لیا۔‘‘ کیا یہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں ہوا؟ کیا ایک شخص نبی ہوتے ہوئے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اس بات کو سر سری طور پر نہ لیں ۔ کیوں کہ ہم ایک نبی پر ایمان ہی اس بنیاد پر لاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔
(۲) سورۂ نمل میں ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کا شاہی تخت، اس وقت جب وہ اپنے محل میں موجود نہیں تھی، اٹھوا کر اپنے یہاں منگوالیا۔‘‘ اس فعل کو آپ کیوں کر جائز ٹھہرائیں گے؟ بھلا بتایے، اگر آپ اپنے گھر میں موجود نہ ہوں اور کوئی شخص آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے گھر سے آپ کا سامان اٹھا لے جائے تو آپ اس عمل کو کیا کہیں گے؟

قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟

قرآن کے مطالعہ کے دوران چند مقامات پر ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم تشریح و توضیح فرما کر ممنون فرمایئے:
(۱) سورۂ اعراف آیت ۲۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ مولانا مودودی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤگے۔‘‘ ’جس طرح‘ کے لفظ سے فوراً یہ مفہوم ذہن میں آتا ہے کہ جس طرح اس نے تمھیں اب، یعنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے، اسی طرح، یعنی ماؤں کے پیٹ سے، پھر پیدا کیے جاؤگے۔ جب کہ قرآن کے دیگر مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان مرچکے ہیں انھیں از سر نو پیدا نہیں کیا جائے گا، بل کہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ مثلاً سورۂ یٰسین آیت ۵۱ یہ ہے: وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ (پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے) مذکورہ بالا دونوں بیانات ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں ، جب کہ کلام الٰہی میں تضاد و اختلاف ممکن نہیں ۔
(۲) سورۂ آل عمران میں ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ اَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ لاَ خَلاَقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلاَ یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo (آل عمران: ۷۷)
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا، بل کہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نہ مجرموں کی طرف دیکھے گا نہ ان سے بات کرے گا تو ان سے حساب کیسے لے گا؟ حساب لینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو مجرموں سے مخاطب ہونا ہی پڑے گا۔