ازدواجی اور عائلی عدالت

(۱) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ہر کمشنری میں ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کے مرتبے کا جج ایسی عدالتوں میں مقرر کیا جائے جہاں ازدواجی و عائلی مقدمات دائر ہوں ؟
(۲) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسے مقدمات جو ازدواجی و عائلی قوانین کے تحت آتے ہوں اور جہاں عورت مدعیہ ہو فقط ایسی مخصوص عدالتوں میں دائر ہو سکیں ؟
(۳) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں کے ضوابط موجودہ دیوانی اور فوج داری ضوابط سے الگ ہوں اور یہ قانون وضع کر دیا جائے کہ ایسی عدالت ہر مقدمے کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر کر دے؟
(۴) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں کورٹ فیس یا دوسرے عدالتی اخراجات نہ ہوں ؟
(۵) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالتوں میں فریقین اپنے کسی نمائندے یا اقارب کے ذریعے پیروی کر سکیں اور کسی باقاعدہ سند یافتہ وکیل کا ہونا لازمی نہ ہو؟
(۶) کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کم از کم ایک مرد اور ایک عورت بطورِ مشیر جج کے ساتھ ہوں ؟
(۷) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ ایسی عدالت مختلف اضلاع میں باری باری سے اپنا اجلاس طلب کرے؟
(۸) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ فریقین کو ایک سے زیادہ اپیل کی اجازت نہ ہو؟
(۹) کیا آپ اس کے حق میں ہیں کہ اپیل براہِ راست ہائی کورٹ میں ہونی چاہیے اور اپیل کا فیصلہ بھی تین ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے؟

ایسی عدالت کے فیصلے سے واجب الادا رقوم کی وصولی اور دیگر احکام کی بجا آوری کے لیے آپ کیا مناسب تجاویز پیش کرتے ہیں ؟

ایسے مقدمات میں اخراجات ِمتفرقہ کو پورا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟

کیا ازدواجی و عائلی عدالت کو مطلّقہ کے مطالبے پر یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مطلّقہ کو تاحینِ حیات یا تا عقدِثانی نفقہ دلوائے؟

عورت کی طرف سے مطالبہ طلاق

کیا آپ ڈیسولیوشن آف میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء (انفساخِ نکاح مسلمین۱۹۳۹ء) کی تمام دفعات کو جامع اور تشفی بخش سمجھتے ہیں ۔ یا آپ کے نزدیک اس میں اضافہ و ترمیم ہونی چاہیے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ مناسب ہو گا کہ خلع کے متعلق مجلس آئین ساز واضح اور غیر مبہم قانون وضع کرے؟

تعدّدِ ازواج

قرآن کریم میں تعدد ازواج کی بابت ایک ہی آیت (النسآء:۴) ہے جو حقوق یتامیٰ کی حفاظت کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیا آپ کے نزدیک جہاں حقوق یتامیٰ کا سوال نہ ہو وہاں تعدّد ازواج کو ممنوع کیا جا سکتا ہے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ لازمی ہونا چاہیے کہ عقدِ ثانی کا ارادہ رکھنے والا شخص عدالت سے اجازت حاصل کرے؟

کیا آپ کے نزدیک یہ قانون ہونا چاہیے کہ عدالت یہ اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ درخواست دہندہ دونوں بیویوں اور ان کی اولاد کی اس معیارِ زندگی کے مطابق کفالت کر سکتا ہے جس کے وہ عادی ہیں ؟

کیا یہ قانون ہونا چاہیے کہ دوسری شادی کرنے والے کی کم از کم نصف تنخواہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو عدالت دلوائے؟ اور جو لوگ تنخواہ دار نہیں بلکہ دوسرے ذرائع آمدنی رکھتے ہیں ان سے عدالت ضمانت لے کہ وہ اپنی آمدنی کا کم از کم نصف پہلی بیوی اور اس کی اولاد کو دیتے رہیں گے؟