حضرت خَضِر؈ کی بشریّت کا مسئلہ
تفہیم القرآن جلد سوم سورۂ الکہف،زیر مطالعہ ہے۔ حضرت خضر؈ کا واقعہ اورآپ کا حاشیہ نمبر۶۰ پوری طرح پڑھ چکا ہوں ۔ حضرت خضر کی نسبت آپ کا قیاس اور میلان یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ یا غیر بشر ہوں گے۔ میرے ذہن میں چند ایسے اُمور موجود ہیں جو آپ کے میلان سے سرِدست متفق ہونے پر راضی نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے آپ کی مزید واضح تفہیم کا محتاج ہوں ۔ آپ کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہر مومن کی بشریت مکلفِ شریعت ہے۔ اس لیے حضرت خضر کی بشریت تسلیم کرنے میں ’’شرعی ٹکرائو‘‘ یا شرعی پیچیدگی حائل و مانع ہے۔ گویا اگر اس کا کوئی حل نکل آئے تو حضرت خَضِر کی بشریت معرضِ بحث میں نہیں آتی لیکن حضرت خضر کا قرآن میں جس طرح ذکر آیا ہے، اس سے ان کے بشر ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں ان کو فرشتے انجام نہیں دیا کرتے۔ رضاے الٰہی کسی انسان کے نفع و ضرر کے پیشِ نظر، کسی فرشتے یا کارکنانِ قضا و قدر کو، کسی خاص مشن پر اُسی وقت مامور فرماتی ہے جب انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے اور اس کی ساری توانائی اور اس کے تمام ذرائع و وسائل جواب دے جاتے ہیں ۔ پھر ان کی کارکردگی کے طور طریقے بھی انسانی طور طریقوں سے بالکل مختلف اور ممتاز قسم کی ندرت بھی رکھتے ہیں ۔
کشتی کا تختہ توڑنے، لڑکے کو ہلاک کرنے اور گرتی دیوار کو سنبھالا دینے کے لیے کسی فرشتے کی توانائی درکار نہیں ہوتی۔ یہ معمولی انسانی کام ہیں اور ان میں وہ امتیازی نُدرت بھی نہیں پائی جاتی جو غیبی کارکردگی کی طرف ذہن کو منتقل کرسکے۔ اس لیے قرینہ یہی کہتا ہے کہ حضرتِ خضرؑ بشر تھے، فرشتہ نہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرؑ دونوں نے اہل قریہ سے غذا کی خواہش کی تھی جیسا کہ جمع کے صیغے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں بھوکے تھے، دونوں کو احتیاجِ غذا تھی۔ اگر حضرت خضرؑ واقعی فرشتہ ہوتے تو وہ احتیاجِ غذا سے یقیناً مستغنی ہوتے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ نے جب تلا ہوا بچھڑا فرشتوں کی ضیافت میں پیش کیا تو وہ اس وجہ سے دست کش رہے کہ احتیاجِ غذا سے فطرتاً مستغنی تھے۔ اس سے بھی یہی قرینہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضرؑ بشر تھے۔ فرشتہ نہ تھے۔
بے قصور لڑکے کی ہلاکت صرف حضرت موسیٰعلیہ السلام جیسے حاملِ شریعت ہی کے لیے باعثِ حیرت اور موجبِ اذیت نہ تھی بلکہ ہر سلیم الفطرت انسان کی نظر میں بھی اس کی قباحت واضح تھی۔ مگر حکمِ الٰہی مل جانے کے بعد بجز تعمیلِ حکم کے کوئی گنجایش ہی کہاں تھی۔ یا اسی طرح حضرت ابراہیمؑ اپنی چہیتی اولاد کو حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی اُس شریعت کا سہارا لے کر کوئی عذرِ شرعی پیش کرنے پر مائل تک نہ ہوسکے جس کی رُو سے ناکردہ گناہ اولاد کا قتل، گناہِ عظیم ہے۔
دونوں بزرگوں نے تعمیلِ حکمِ الٰہی کی پیش رفت میں جس جرأت مندانہ انداز میں احتسابِ شریعت سے اجتناب فرمایا اس سے تو بظاہر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معمولاً احکامِ شریعت کی پابندی لازم ہے، مگر جب کسی شخص کو کسی امرِ خاص میں بطورِ خاص براہِ راست حکمِ الٰہی مل جائے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ احکامِ شریعت سے صرفِ نظر کرسکے۔
ان بزرگانِ محترم کے طرزِ عمل، اور اندازِ فکر کو ملحوظ رکھ کر متأخرین کی کاوشِ فکر سے ہم آہنگ ہونے پر طبیعت نہ تو راضی ہوتی ہے اور نہ حضرت خضر کی بشریت کا انکار کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتِ عام تو ہر شَے کو محیط ہے مگر جب اللّٰہ تعالیٰ اپنی کسی رحمتِ خاص کا ذکر اٰتَیْنٰہُ رَحْمۃً مِّنْ عِنْدِنَا اور وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا کے الفاظ میں فرماتا ہے تو اُس کی رحمت کی نوعیت اور وسعت تقریباً اسی پیمانے کی محسوس ہوتی ہے جو بعض نبی یا رسول کے لیے وَاٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا کے الفاظ میں مستور پائی جاتی ہے۔ میری حدِ علم تک درج بالا تینوں آیات کسی فرشتے کے حق میں کبھی نازل نہیں ہوئیں ۔ اور جب کسی خوش نصیب انسان سے یہ آیات متعلق ہوتی ہیں تو ان کی تعبیر و تفسیر میں نبوت یا رسالت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اگر یہ تأویل قابلِ قبول ہو تو پھر حضرت خضرؑ صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ نبی یا رسول بھی ہوسکتے ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جب کسی فرد انسان کو اپنے کسی خاص علم و معرفت سے نوازنا چاہا ہے اور کوئی فرشتہ اس کا واسطہ قرار پایا ہے تو خود فرشتے ہی کو حاضرِ خدمت کیا گیا ہے، حاملِ وحی و الہام کو نقلِ مقام کی زحمت نہیں دی گئی اور نہ وہ خود ایسے فرشتے کی جستجو میں نکلا۔ واللّٰہ اعلم
مندرجہ بالا جو قرائن خدمتِ گرامی میں پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ہر قرینہ باعثِ خلش بنا ہوا ہے۔ اس کو دور کرنے کے لیے آپ ہی کو زحمتِ تفہیم دینے کے سوا چارہ نہیں ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ جو دینی فکر و فہم اللّٰہ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ۔ دوسرے یہ کچھ مناسب بھی نہیں کہ قیاس و گمانِ غالب تو آپ کا ہو اور استفسار کسی دوسرے سے کیا جائے۔