رفاہِ عامہ کے کاموں میں زکاۃ کا خرچ کرنا
کیا زکاۃ کو رفاہِ عامہ کے کاموں مثلاً مسجدوں ،ہسپتالوں ،سڑکوں ،پلوں ،کنوئوں اور تالابوں وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کیا جاسکتا ہے، جس سے ہر آدمی بلا لحاظ مذہب وملت فائدہ اُٹھا سکے؟
کیا زکاۃ کو رفاہِ عامہ کے کاموں مثلاً مسجدوں ،ہسپتالوں ،سڑکوں ،پلوں ،کنوئوں اور تالابوں وغیرہ کی تعمیر پر خرچ کیا جاسکتا ہے، جس سے ہر آدمی بلا لحاظ مذہب وملت فائدہ اُٹھا سکے؟
کیا زکاۃ کی رقم کسی شخص کو قرضِ حسنہ یا قرضہ بلا سود کے طور پر دی جاسکتی ہے؟
کسی متوفی کے متروکہ سے زکاۃوصول کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟
ایسی کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں کہ لوگ زکاۃ کی ادائگی سے بچنے کے لیے حیلے نہ کرسکیں ؟
کیا کبھی زکاۃ کو سرکاری محصول قرار دیا گیا؟ یا وہ کوئی ایسا محصول ہے کہ حکومت محض اُس کی وصولی اور انتظام ہی کی ذمہ دار رہی ہو؟
وہ ایسے کون سے ٹیکس ہیں جو ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں سے ازروے قرآن وسنت وصول کرنے کی مجاز ہے؟
کیا رسول اکرمﷺ کے زمانے یا خلفاے راشدین کے دور حکومت میں اغراض عامہ کے کاموں کے لیے زکاۃ کے علاوہ بھی کوئی سرکاری محصول وصول کیا گیا؟ اگر کیا گیا تو وہ کون سا محصول تھا؟
کیا اسلام میں زکاۃ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس عائد کرنا بھی جائز ہے؟
اسلامی ملکوں میں زکاۃ کی وصولی او رانتظام کرنے کا کیا طریقہ رہا ہے اور اب کیا ہے؟
آپ کی نظر میں زکاۃ کے نظم ونسق کو چلانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟کیا زکاۃ جمع کرنے کے لیے کوئی الگ محکمہ قائم کیا جائے یا حکومت کے موجودہ محکموں سے ہی یہ کام لیا جائے؟