نماز ِقصر کے لیے مسافرت کی حد

میرے بعض عراقی دوست جو کئی سالوں سے لندن میں مقیم ہیں ،اب تک نماز قصر کرکے پڑھتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ مسافرت کی حد نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں ،فقہا کی اپنی اختراع ہے، لہٰذا ہم نہیں مانتے۔جب تک اپنے وطن سے باہر ہیں ،مسافر ہیں ۔قصر کریں گے،چاہے ساری عمر لندن میں گزر جائے۔ان کو کس طرح مطمئن کروں کہ ان کی روش غلط ہے؟

قصر نماز میں امن اور خوف کی شرط

صلاۃ قصر کے بارے میں بھی قرآن وضاحت کرتا ہے کہ صرف پُرخطر سفر جہاد میں ہی نمازمیں قصر کیا جاسکتا ہے۔کیا عام پرامن سفر میں قصر خلاف قرآن نہیں ہے؟

نمازوں کی بروقت ادایگی کی مشکلات

میرا سوال انگلستان میں نمازوں کے متعلق ہے۔صبح کی نماز کا وقت۶بج کر۳۸منٹ تک رہتا ہے۔یہ تو اﷲ کے فضل وکرم سے ادا کرلیتا ہوں ۔ ظہر کے لیے مشکل سے وقت ملتا ہے۔ساڑھے بارہ سے لے کر ڈیڑھ تک کھانے کے لیے وقت ملتاہے۔اسی ایک گھنٹے میں کلاس سے میس(mess) تک آنے جانے میں بھی وقت لگتا ہے اور اس میں وضو اور نماز کے لیے بھی وقت نکالتا ہوں ۔ لیکن بہت ہی دقت ہوتی ہے۔عصر کے لیے سرے سے وقت ملتا ہی نہیں ، کیوں کہ فرصت ساڑھے چار بجے ہوتی ہے اور ساڑھے چار بجے سے پانچ بجے تک ناشتہ ہوتا ہے اور۴بج کر۴۸منٹ پر مغرب ہوجاتی ہے۔ناشتے کے فوراً بعد مغرب تو ادا کرلیتا ہوں ،لیکن عصر رہ جاتی ہے۔ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو ملا کر پڑھنے کا کیا قاعدہ ہے۔ووکنگ مسجد کے امام صاحب بعض اوقات نمازوں کوملا کر پڑھتے ہیں ۔
یہاں ہم بارہ طلبہ آئے ہوئے ہیں ، جن میں سے مجھ سمیت کل پانچ لڑکے ایسے ہیں جو دین کا لحاظ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں ، اور بقیہ ایسے ہیں کہ ہم کو طرح طرح سے بے وقوف بناتے ہیں ۔تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ میں ان باتوں سے کبھی نہیں گھبراتا بلکہ صحیح بات معلوم کرکے اس پر عمل بھی کرنا چاہتا ہوں ۔ان مسائل پر میں نے ہمیشہ اﷲ کو حاضرو ناظر جان کر غور کیا ہے اور اس سے ہمیشہ یہی توقع رکھی ہے کہ وہ مجھے ضرور صحیح راستے کی طرف ہدایت دے گا،مگر بشری کمزوریوں کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ کوئی غلط صورت نہ اختیار کر بیٹھوں ۔اس لیے آپ سے یہ سوال کررہا ہوں ۔

ننگے سر نماز پڑھنا

ننگے سر نماز پڑھنا کیسا ہے، جب کہ ٹوپی یا کپڑا موجود ہو؟ کیا کوئی حدیث ایسی ہے جس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز ملتا ہے؟

انگریزی میں نماز

میں اکیس سال کا ایک انگریز مسلمان ہوں ۔ ایک سال قبل جب کہ میں سومالی لینڈ({ FR 2009 }) میں ایک فوجی افسر تھا،اس وقت اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوا۔ میرا سوال اسلام کی سرکاری زبان سے متعلق ہے۔ اس سے پیشتر جب میں مسیحیت کا پیرو تھا، اس وقت میں اپنی عبادت اور کتاب مقدس اپنی مادری زبان(انگریزی) میں پڑھا کرتا۔ اب جب کہ میں دائرۂ اسلام میں آچکا ہوں ، تو مجھے نماز اور قرآن کریم دونوں عربی زبان میں پڑھنے پڑتے ہیں ۔ اس تبدیلی سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں عربی کی پابندی کی وجہ سے، خواہ اس میں کتنا ہی حسن کیوں نہ ہو، بہت بڑی روحانیت سے محروم کردیا گیا ہوں ۔
میں آپ کا انتہائی سپاس گزار ہوں گا اگر آپ میری اس معاملے میں راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں نماز انگریزی میں ادا کرسکتا ہوں ؟ اس مسئلے پر شرح صدر حاصل کرنے کے لیے براہِ کرم مجھے ان قدیم ائمۂ اسلام کے نام بتائیں جنھوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کیا ہو۔
اگرچہ یہ میر ی ذاتی اُلجھن ہے لیکن میں یہ بات قدرے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ چیز خصوصاً یورپ میں بہت سے غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے راستے میں حائل ہے۔ لندن میں میرے بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ میں اس معاملے میں جناب کی طرف رجوع کروں ۔ مجھے امید ہے کہ جناب کی راہ نمائی میرے لیے انتہائی قیمتی ہوگی۔

چُھوٹے ہوئے فرائض شرعیہ کی قضا

ایک مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’قضا نمازیں جلد سے جلد ادا کرنا لازم ہیں … جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا۔‘‘
اس اصول کی عقلی حیثیت کسی دلیل کی محتاج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ شریعت ہمارے کسی عقلی اصول کو تسلیم کرکے اس پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھے۔ ادھر ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ ہر شخص پر ایک زمانہ تھوڑا یا بہت جاہلیت کا گزر چکا ہے جس میں نہ نماز کا خیال نہ روزے کی پروا، اس لیے قضا نمازوں کے لازم فی الذمہ ہونے سے بہت ہی کم لوگ خالی ہیں ۔
اب اس مسئلے سے حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں :
کیا واقعی جب تک کوئی فرض نماز باقی فی الذمہ ہے نوافل(جن میں سنن رواتب بھی داخل ہیں ) مقبو ل نہ ہوں گے؟
جو لوگ اس حالت میں کہ(قضا نمازیں ان کے ذمے ہیں ) ہر نماز کے ساتھ سنتیں اور نفلیں پڑھتے ہیں ،ان کی سنتوں اور نفلوں کا کیا ہوگا؟ کیا وہ ضائع کی جائیں گی یا قضا نمازوں میں محسوب ہوں گی؟
یہ اصول تو عام اور ہمہ گیر ہے، یقینا نمازوں کے ساتھ اس کی خصوصیت کی کوئی وجہ نہیں ، تو کیا روزوں اور دیگر فرائض شرعیہ میں بھی یہی اصول جاری ہے؟
خصوصیت کے ساتھ زکاۃ کے متعلق وضاحت فرمائیں ۔ اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ زکاۃ ادا نہیں کرتے لیکن نفل صدقات دیتے رہتے ہیں ۔ مثلاًکبھی کوئی چیز پکوا کر فقرا کو تقسیم کردی۔ کسی نیک کام میں چندہ دے دیا۔ سائلوں کو پیسے دے دیے۔ اسی طرح زمین دار اور کاشت کار حضرات عشر ادا نہیں کرتے لیکن برداشت ِ فصل کے موقع پر جمع شدہ سائلین کو کچھ دے دیتے ہیں اور سارا سال گداگروں کو ان کے گھر والوں کی طرف سے مٹھی آٹا اور غلہ دیا جاتا رہتا ہے، اس طرح دیتے وقت نہ ان کی نیت عُشر اور زکاۃ کی ہوتی ہے نہ انھوں نے عُشر اور زکاۃ کا کوئی حساب کر رکھا ہوتا ہے۔
اس طرح کے اخراجات کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا وہ سب دیا دلایا ضائع جارہا ہے یا عنداﷲ عُشر اور زکاۃ میں محسوب ہورہا ہے؟
اس اصول پر کہ(جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا)دلیل کی حیثیت سے جو قولہ تعالیٰ اِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہٗ ۭ ({ FR 1729 }) (فاطر:۱۰) کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ کیا کسی حدیث میں عمل صالح کی تفسیر فرائض اور الکلم الطیب کی نفلی اذکار کے ساتھ وارد ہوئی ہے؟

اذان میں رسالت کی شہادت

ایک دن میں صبح کی اذان سن رہا تھا کہ ذہن میں عجیب وغریب سوالات اُبھرنے لگے اور شکو ک وشبہات کا ایک طوفان دل میں برپا ہوگیا… اذان سے ذہن نماز کی طرف منتقل ہوا، اورجب سوچنا شروع کیا تو نماز کی عجیب صورت سامنے آئی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نماز کس طرح پڑھوں اور کیا پڑھوں ؟
ایک مسلمان کو ماں کی گود ہی میں جو اوّلین درس ملتا ہے،وہ یہ ہے: ’’اﷲ ہی لائق عبادت ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ‘‘… پھراذان بلاوا ہے خالصتاً اﷲکی عبادت کے لیے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ، تو أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُکے ساتھ ہی اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَسُوْلُ اللّٰہِ کے کیا معنی؟

رسول اللّٰہ ﷺ کا تشہد

دونوں درود شریف جو ہم پڑھتے ہیں ،ظاہر ہے کہ حضور ﷺ اس طرح نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم توپڑھتے ہیں : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی الِ مُحَمَّدٍ ’’اے اﷲ! رحمت فرما محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر‘‘ یہ دونوں درود شریف درحقیقت دُعائیں ہیں اور اسی طرح تشہد اور دعارَبِّ اجْعَلْنِیْ بھی۔عبادت نام دعائوں کا نہیں بلکہ اس خالق ارض وسماکی حمد وثنا بیان کرنے کا نام ہے، تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں کہ عبادت کے اختتام پر دعائیں مانگی جائیں ، بہ نسبت اس کے کہ عین عبادت میں دعائیں مانگنی شروع کردی جائیں ؟میرا خیال ہے کہ حضور ﷺ خود تشہد اور درود شریف وغیر ہ نہیں پڑھتے ہوں گے، کیوں کہ آپ ؐ سے یہ بعید ہے کہ عین نماز میں آپؐ اپنے لیے دعا ئیں مانگنے لگتے۔پھر ذرا تشہد پر غور فرمایئے۔ظاہر ہے کہ درود کی طرح اگر حضور ﷺ تشہد بھی پڑھتے تھے تو وہ بھی الگ ہوگا۔ کیوں کہ ’’اے نبی! تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ‘‘ کی جگہ آپؐ پڑھتے ہوں گے: ’’مجھ پر سلام اور خداکی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ۔‘‘