صدقۂ فطر احکام ومسائل
دقۂ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسے رمضان کی ابتدا میں نکالا جا سکتا ہے؟ صدقۂ فطر کیا اناج کی شکل میں ادا کرنا ضروری ہے، یا اس کی نقد ادائیگی بھی جائزہے؟
دقۂ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسے رمضان کی ابتدا میں نکالا جا سکتا ہے؟ صدقۂ فطر کیا اناج کی شکل میں ادا کرنا ضروری ہے، یا اس کی نقد ادائیگی بھی جائزہے؟
:ایک صاحب نے کہا کہ احادیث میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔بہ راہ کرم وضاحت فرمادیں ، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر ممانعت ثابت ہے تو اس کی حکمت پربھی کچھ روشنی ڈال دیں ۔
کیا شوال کے روزوں کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ اگر ہاں تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ کیا انھیں عید کے بعد فوراً رکھنا ہے، یا کچھ وقفہ کرکے رکھے جا سکتے ہیں ۔ مسلسل رکھنے ہیں یا تسلسل ضروری نہیں ہے؟براہ کرم وضاحت فرمادیں ۔
آج کل چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھوا یا جاتا ہے۔ کوئی بچہ جب پہلی بار روزہ رکھتا ہے تو اس کے افطار کی تقریب بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے۔ کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے؟
آٹھ سال کی عمر کے بچوں پر روزہ فرض نہیں ہے ۔ کیا ماں باپ اس عمر کے بچوں کو زبردستی روزہ رکھواسکتے ہیں ، تاکہ ان کی عادت بنے ؟ یہ بھی بتائیں کہ روزہ کتنی عمر کے بچوں پر فرض ہوتا ہے ؟
محرم الحرام کے دوروزوں (نواور دس) کی فضیلت احادیث میں واردہوئی ہے اور یہ روزے عموماً رکھے جاتے ہیں ۔لیکن بعض حضرات یکم محرم سے د س محرم تک روزہ رکھنا بھی سنت قراردیتے ہیں ۔ کیا یہ عمل اللہ کے رسولﷺ اورصحابہ سے ثابت ہے؟ اس کو سنت کہنا کیسا ہے؟
عرب ممالک میں روزہ ہندوستان سے ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ وہاں ملازمت کرنے والے ہندوستانی بسا اوقات دوران رمضان میں اپنے ملک واپس آتے ہیں ۔ یہاں کبھی انتیس (۲۹) کا چاند نہ ہونے کی وجہ سے تیسواں روزہ رکھنا پڑتا ہے، جو عرب ممالک سے آنے والوں کا اکتیسواں روزہ ہوتا ہے۔ ان کے سلسلے میں یہ سوال ہے کہ وہ اکتیسواں روزہ رکھیں یا نہ رکھیں ؟ بعض حضرات کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چوں کہ قمری مہینہ انتیس (۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے، اس لیے اکتیسواں روزہ رکھنا درست نہیں ۔ بہ راہ کرم اس معاملہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔
ہمارے یہاں ایک مسجد ہے، جس کے امام کو ہر ماہ پانچ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ تراویح پڑھانے کے لیے الگ سے ہنگامی چندہ کیا جاتا تھا اور اسے نذرانے کے طور پر امام صاحب کو دیا جاتا تھا۔ مگر بعض رسائل میں اس کے خلاف مستند اداروں کا فتویٰ شائع ہوا اور ہماری مسجد کے متولی صاحب نے بھی الگ سے فتویٰ منگوایا، جس میں اسے ناجائز کہا گیا تھا، تو اسے بند کردیا گیا۔ مگر پھر بونس کے نام سے دو ماہ کے برابر تنخواہ یعنی دس ہزار روپے عید کے موقع پر دیے جانے لگے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سرکاری ملازمین اور بعض پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو بھی تہواروں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر بونس دیا جاتا ہے۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
بہ راہ کرم میرے درج ذیل سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں :
(۱) ولادت کے بعد ایامِ نفاس میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے کئی بچوں کی ولادت ماہ رمضان میں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کافی روزے قضا ہوگئے ہیں اور ان پر عرصہ بیت گیا ہے۔ درمیان میں جب جب ہمت ہوئی ان میں سے کچھ روزے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صحت و تن درستی کے لحاظ سے کم زور و ناتواں واقع ہوئی ہوں ۔ گھریلو ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔ جب جب روزہ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، نڈھال ہوجاتی ہوں ۔ صحت اس میں تسلسل کی اجازت نہیں دیتی۔ مختلف عوارض کا علاج بھی جاری ہے۔ کیا ان حالات میں روزہ رکھ کر ہی قضا روزوں کا فرض ساقط ہوگا یا فدیہ دے کر بھی اس فرض سے سبک دوش ہوا جاسکتا ہے؟
(۲) اگر حج کا ارادہ ہو اور بہت سے روزوں کی قضا بھی لازم ہو تو کیا سفر سے پہلے قضا روزوں کی ادائی ضروری ہے؟
(۳) فدیہ کے سلسلے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ اس کا صحیح طریقہ اور مقدار کیا ہے؟
ایک صاحب نے چاند دیکھ کر افطار کیا، حالاں کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، بلکہ عصر ہی کا وقت تھا۔ اگر چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر افطار کرنا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا حق کہاں ادا ہوا کہ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (اپنا روزہ رات تک پورا کرو)۔ جہاں تک روزہ رکھنے کا سوال ہے وہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے یا عصر کے وقت ہی دکھائی دے تو کیا اسی وقت افطار کرنا چاہیے، یا پھر معمول کی طرح سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا چاہیے؟ بہ راہ کرم اس سلسلے میں مکمل رہ نمائی فرمائیں ۔