حضرت سلیمان ؈ کا۹۹ یا۱۰۱ بیویوں کے پاس جانا

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت سلیمان ؈ نے ارشاد فرمایا کہ آج رات میں اپنی تمام بیویوں سے،جن کی تعداد ایک سو ایک یا ننانوے تھی،مجامعت کروں گا۔ ہر ایک بیوی سے ایک شہسوار پیدا ہوگا جو خدا کی راہ میں جہاد کرے گا۔ کسی نے کہا ان شائ اﷲ بھی ساتھ کہیے لیکن حضرت سلیمان ؈ نے پروا نہ کی۔چنانچہ وہ اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کوئی حاملہ نہ ہوئی۔ (بخاری،ج دوم،ص۹۳) امید ہےآپ اس حدیث کی وضاحت کرکے میری پریشانی و بے اطمینانی رفع فرمائیں گے۔شکر گزار رہوں گا۔

آپ نے سورۂ ص کی تفسیر میں حضرت سلیمان ؈ کے متعلق روایت ابوہریرہؓ کی سند کو درست قرار دیا ہے مگر اس کے مضمون کو صریح عقل کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔({ FR 1578 }) آپ کے مخالفین اس چیز کو آپ کے انکارِ سنت پر بطورِ دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ آپ عقل کی آڑ لے کر صحیح احادیث کا انکار کر دیتے ہیں ۔ آپ اپنی اس راے کو بدل دیں یا پھر اس پر کوئی نقلی دلیل آپ کے پاس ہو تو تحریر فرمائیں ۔ اگر ائمۂ اسلاف میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں ۔
اگر کسی امام نے کسی حدیث کی سند کو درست تسلیم کرکے اس کے مضمون کو صرف خلافِ عقل ہونے کی بنا پر مسترد کیا ہو تو اس کا حوالہ تحریر فرمائیں ۔
مکرر عرض ہے کہ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت سلیمان ؈ ایک رات میں نوے بیویوں کے پاس گئے تو اس سے کون سی شرعی قباحت لازم آتی ہے۔ کیا آپ بھی جدید مغرب زدہ طبقے سے مرعوب تو نہیں ہو رہے؟

حضرت سلیمان ؈ کے مردہ جسم کاعصا کے سہارے کھڑا رہنا

سورہ سبا آیت۱۴، ح۲۴، صفحہ۱۹۰۔ حضرت سلیمانؑ کا مردہ جسم عصا کے سہارے اتنی مدت کھڑا رہا کہ گُھن نے عصا کو کمزور کر دیا اور جِنّوں کو (اور یقینا انسانوں کو بھی) ان کے انتقال کا علم نہ ہوا… یہ بات بعید ازقیاس ہے اور قرآن اسے کسی معجزے کے طور پر پیش نہیں کر رہا ہے… کیا جنّوں (اور دیگر عمائدِ سلطنت) میں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ حضرت سلیمانؑ جو بولتے چالتے، کھاتے پیتے، مقدمات کے فیصلے سناتے، فریادیں سنتے، احکام جاری کرتے، عبادت کرتے، حاجات سے فارغ ہوتے تھے اتنی دیر (بلکہ مدت) سے ساکت وصامت کیوں کھڑے ہیں ؟ کیا زندگی کے ثبوت کے لیے صرف کھڑا رہنا کافی ہے؟ اور پھر آپ کے اہل و عیال؟ کیا انھیں بھی انتقال کا پتا نہیں چلا (جو ناممکن ہے) یا انھی نے یہ ایک ترکیب نکالی تھی؟
مفسر محترم نے جس بات کو صاف اور صریح فرمایا ہے وہ خود ایک پہیلی ہے۔

حضرت موسیٰ ؈ کی دعوت کے دو اہم اجزا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ لکھتے ہیں :’’پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اﷲ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کاقانون بنانے کی دعوت دی جائے،دعوت عام ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق چیزوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔‘‘ کیا دعوتِ توحید کے ساتھ رہائی بنی اسرائیل کا مطالبہ جو حضرت موسیٰ ؑنے کیا، غیر متعلق چیز نہ تھی؟

بنی اسرائیل کا مسلمان ہونا

سیاسی کش مکش حصہ سوم میں صفحہ۹۵ پر آپ مزید لکھتے ہیں :’’ دوسرا جز یہ ہے کہ جتھا ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان بوجھ کر اور سمجھ کر قبول کریں ،جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اﷲ کے لیے خالص کردیں ۔‘‘ کیا سب بنی اسرائیل ایسے ہی تھے ؟کیا ان کے اعمال سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے؟ کیا فرعون کے غرق ہونے سے پہلے ان میں سے کسی نے بھی دین ِ موسوی قبول کرنے سے انکار نہیں کیا تھا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟حالاں کہ کسی سعی اورکش مکش کا پتا قرآن پاک سے نہیں چلتا جس کی بنا پر بنی اسرائیل کے لکھو کھا آدمی تمام کے تمام مشرکانہ طاقتوں کے زیر دست رہنے کے باوجود ایک دم ایمان لے آئے ہوں ۔جو برتائو یہودیوں نے حضرت مسیح ؈ کے ساتھ کیا،وہی برتائو حضرت موسٰیـ کے ساتھ اس زمانے کے کچھ بنی اسرائیل حکومت کی طاقت کو حرکت میں لا کر کرسکتے تھے اور اگر اُن میں کچھ کافر تھے تو وہ فرعون کے ساتھ غرق ہوئے یا نہیں ؟

حضرت مسیح ؈ کی بن باپ کے پیدائش

لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ان کا طریق استدلال یہ ہے کہ جب فرشتے نے حضرت مریم ؉ کو خوش خبری سنائی کہ ایک پاکیزہ لڑکا تیرے بطن سے پیدا ہو گا، تو انھوں نے جواب دیا کہ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور نہ میں بدکار ہوں ۔ جب یہ فرشتہ نازل ہوا اس وقت اگر حضرت مریمؑ کو کنواری مان لیا جائے اور بعد میں یوسف نجار سے ان کی شادی ہوگئی ہو اور اس کے بعدحضرت مسیح ؈کی پیدائش ہو تو کیا خدائی وعدہ سچا ثابت نہیں ہوگا؟
ان کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ خدا اپنی سنت نہیں بدلتا اور اس کے لیے وہ قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں :
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا (الفتح:۲۳) ’’اور تم اللّٰہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ لڑکے کی پیدائش ایک عورت اور ایک مرد کے ملاپ کا نتیجہ ہے ۔کیوں کہ ازل سے یہ سنت اﷲہے اور یہ اب تک قائم ہے۔
براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک درست ہے۔اگر وقت کی کمی کے باعث طویل جواب لکھنا آپ مناسب نہ سمجھیں تو کتابوں کا حوالہ ہی ہمارے لیے کافی ہوگا۔

حضرت آدم ؈ کے دور کا تعین

حضرت آدم ؈ تاریخ کے کس دور میں پیدا ہوئے؟اس ضمن میں مذہب جو معلومات ہمیں فراہم کرتا ہے،نفسیاتی اور ارضیاتی حقائق ان کی تائید نہیں کرتے۔کیا آدم ؈ اور حوا کا یہ قصہ ایک تمثیل اور مجازی چیزنہیں ؟

جِنّات کے لیے شرعی احکام کی نوعیت

اس سورہ(الاحقاف) سے پتا چلتا ہے کہ جِن اتفاقی طور پر ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے طور پر اپنے ساتھیوں کو اسلام کی دعوت دی… اگر حضورﷺ انسانوں کی طرح جِنّوں کے لیے بھی مبعوث تھے تو آپ نے جِنّوں کو خود دعوت کیوں نہ دی؟ ان کی دینی تربیت کے لیے کیا اہتمام اور کیا انتظام فرمایا؟ اور اُن کے لیے شرعی احکام کی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید کی معاشرتی تعلیمات جنوں کے لیے بھی اسی طرح سے واجب ہیں جیسے انسانوں کے لیے، یا ان کے احکام مختلف ہیں ؟

سورة الاحزاب،آیت:۳۳ سےقادیانیوں کا غلط استدلال

تفہیم القرآن‘ سورۂ آل عمران صفحہ۲۶۸، آیت وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ… (آل عمران:۸۱) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر۶۹ یوں درج کیا ہے کہ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتارہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی اُمت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن نہ قرآن میں ،نہ حدیث میں ،کہیں بھی اس امر کا پتا نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو،یا آپ ؐنے اپنی اُمت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو۔‘‘
اس عبارت کا مطالعہ کرنے کے بعد دل میں یہ بات آئی کہ بے شک محمدﷺ نے تو نہیں فرمایا،لیکن خود قرآن مجید میں سورۂ الاحزاب میں ایک میثاق کا ذکر یوں آتا ہے:
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَہُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ … (الاحزاب:۷)
’’اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوحؑسے بھی۔‘‘
یہاں لفظ ’’مِنْکَ‘‘ کے ذریعے نبی ﷺسے خطاب ہے۔میثاق وہی ہے جس کا ذکر سورۂ آل عمران میں ہوچکا ہے۔ ہر دو سورتوں یعنی آل عمران اور الاحزاب کی مذکورۂ بالا آیات میں میثاق کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی میثاق جو دوسرے انبیا سے لیا گیا تھا، محمد رسول اﷲ ﷺ سے بھی لیا گیا ہے۔
دراصل یہ سوال قادیانیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے پیدا ہوا ہے جس میں ان دونوں سورتوں کی درج بالا آیات کی تفسیر ایک دوسرے کی مدد سے کی گئی ہے اور لفظ ’’مِنْکَ‘‘ پر بڑی بحث درج ہے۔