کیا عورت کے لیے چست لباس پہننا جائز ہے؟

آج کل عورتوں میں  چست لباس بہت عام ہوگیا ہے ، خاص طورپر جسم کے نچلے حصے میں  پہناجانے والا لباس ۔چنانچہ ٹانگوں کو حجم بالکل نمایاں  رہتا ہے ۔ دینی حلقوں کی خواتین بھی ایسا لباس زیب تن کرنے میں  کوئی عارمحسوس نہیں  کرتیں ۔ کیا ’عموم بلویٰ ‘کی وجہ سے ایسا لباس اب جوا ز کے دائرے میں آگیا ہے؟بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

حِجامۃ کے ذریعے علاج

ہمارے یہاں ایک مسلم ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہیں ۔ وہ حِجامۃ کے طریقۂ علاج کو اندھی تقلید کہتے ہیں ،جب کہ اس علاج کے تعلق سے طب نبویؐ میں کافی احادیث مذکور ہیں ۔ آج کے دور میں ہر بیماری کے لیے کئی طریقہ ہائے علاج موجود ہیں ۔ اس کے باوجود حِجامۃ کے ذریعے علاج کرانا کیا جائزہے؟

مخالف ماحول میں ہم کیا کریں ؟

میں دینی مزاج رکھتی ہوں ، لیکن میری سسرال والے بالکل دین پسند نہیں ہیں ۔ انہیں نماز روزے سےکوئی مطلب ہے نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ برا مانتے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیسے ان کی اصلاح کروں ؟ میں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔

تحدیدنسل کی حرمت پر بعض اشکالات

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا ہے ۔(الانعام: ۱۵۱) اس آیت سے یہ بات تو واضـح ہے کہ زندہ اولاد کا قتل حرام ہے ، جیسے عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج اسقاطِ حمل کے طریقے کو بھی اس آیت کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے ، لیکن جب آگے بڑھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کا آپریشن کراکے توالد وتناسل بند کردینا بھی حرام ہے تویہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اس فعل کے حرام ہونے کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ۔
عزل کی متبادل صورتیں ، جوآج کل رائج ہیں اور جن سے دو بچوں کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے ، اہلِ علم ان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اوراسے مطلقاً جائز مانتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص ان صورتوں کواختیار کرکے اس فاصلہ کوکتنی ہی مدت تک دراز کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ اپنی بیوی کی موت تک، توپھر اس کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپریشن کرواکے عورت کو ما ں بننے کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے۔ قتل اولاد کی ممانعت کا اطلاق حاملہ عورت کے جنین پر توہوسکتا ہے ، لیکن اس نطفے پر کیسے ہوسکتا ہے جس سے ابھی حمل کا استقرار ہی نہیں ہوا ہے ۔ وجود کے بغیر قتل اولاد کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟
دوسری دلیل اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآ ن نے اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے کوشیطان کا فعل قرار دیا ہے ۔ (النساء: ۱۱۹) مولانا مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں اس فعل کوحرام قرار دیا ہے ۔ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ نساء ، حاشیہ : ۱۴۸)اس سے اگر انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی کومراد لیا جائے توپھر اس زمرے میں توبہت سے کام آجائیں گے ، مثلاً مصنوعی آنکھ لگوانا ، ایک شخص کا گردہ یا آنکھ دوسرے شخص کودینا، ہاتھ یا پیر کاٹنا وغیرہ ، لیکن ان کی حرمت کا کوئی بھی قابلِ ذکر فقیہ قائل نہیں ہے۔ جب انہیں گوارا کرلیا گیا(بہ ضرور ت ہی سہی )توپیدائشِ اولاد کو مستقل روکنا بھی ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ اسے کیوں نہیں گوارا کیا جاسکتا۔
میں کثرتِ اولاد کا مخالف نہیں ہوں ، لیکن مسلم معاشرہ میں کثرتِ اولاد سے بہت زیادہ پیچیدگیا ں پیدا ہورہی ہیں ۔جہالت کی وجہ سے انتہائی غریب مسلمان ہرسال بچہ پیدا کرکے عورتوں کوتختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں ،جس کا اثر نہ صرف ان کی صحت پر ، بلکہ بچوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے ، معاشی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں ،و ہ الگ ہیں ۔ اس مسئلہ کوصرف یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اللہ رازق ہے ۔ توکل علی اللہ کی یہ عجیب وغریب مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ آمدنی کوبڑھانے کے لیے توکوئی جدوجہد نہیں کی جاتی، بس اتنا کہہ کر خود کومتوکل باور کرلیاجاتا ہے ۔ اولاد کی تعلیم وتربیت سے مجرمانہ غفلت اس پر مستزاد ہے ۔ پھر جیسے ہی ان کی عمر دس بارہ برس کی ہوجاتی ہےانہیں محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ صورتِ حال ہوسکتا ہے ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں نہ ہو ، لیکن دیہاتوں اورچھوٹے شہروں کی پس ماندہ بستیوں میں عام ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مانع حمل ذرائع استعمال کرکے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، یا پھر حرمت سے واقفیت کے علی الرغم عورتوں کا آپریشن کرواکے اولاد کا سلسلہ بند کردیتا ہے ۔
موجودہ دور کا یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے ۔ آں جناب سے امید ہے کہ جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں گے۔

بیٹے کے مال میں سے باپ کاخرچ کرنا

ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوا۔ وارثوں میں وہ خود اور ان کا ایک بیٹا تھا، جوابھی نابالغ ہے ۔ انہوں نے اپنا حصہ بھی بیٹے کو دے دیا۔ مجموعی رقم تیس لاکھ روپے تھی۔ اس سے ایک فلیٹ خریدا گیا، جس سے ماہانہ کرایہ پچیس ہزار روپے حاصل ہورہے ہیں ۔ اس رقم کو بیٹے کی ضروریات پر خرچ کیاجارہاہے۔
کیا اس رقم میں سے کچھ وہ صاحب اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرسکتے ہیں ؟ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک نوجوان سے مخاطب ہوکر فرمایا : ’’تواور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘کیااس سے بیٹے کے مال میں سے باپ کے لیے خرچ کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔

کیا موجودہ دور کی جنگوں میں گرفتار خواتین کی حیثیت ملک ِیمین کی ہوگی؟

قرآن نے جنسی تعلق جائز ہونے کے لیے نکاح کے علاوہ دوسری صورت ’ملک یمین ‘ کی بتائی ہے۔ مولانا مودودیؒکی تفسیر ’تفہیم القرآن ‘ کے مطالعہ سے ہمیں یہی بات معلوم ہوئی ہے۔ تو کیا آج کے دور میں عرب ممالک میں جو جنگیں ہو رہی ہیں ، ان میں گرفتار خواتین کی حیثیت ’ملک یمین ‘ کی ہوگی؟

امّتِ محمدیہ کا مشن

اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ قوموں کے اختلافات میں صحیح بات کی طرف رہ نمائی فرمائیں ۔کیا آپ کے ساتھ یہ مشن ختم ہوگیا یا آپ کے بعد اب یہ آپ کی امّت کی ذمے داری ہے؟

بعض احادیث کی تحقیق(۱)

ایک حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ ہر عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حجاب ہوتا ہے ، مگر لا الہ الا اللہ اورباپ کی دعا بیٹے کے لیے۔ ان دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں ‘‘۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حدیث کیا درجہ اورمقام رکھتی ہے؟ کیا اسلام میں صرف لڑکے ہی خصوصیت واہمیت رکھتے ہیں اوربھلائیوں اوررحمتوں کےمستحق ہیں ؟ لڑکیوں کی کوئی حیثیت واہمیت ؟ اگر باپ اپنی بیٹیوں کے لئےدُعا کرے تو کیا بہ راہِ راست اللہ تک نہیں پہنچتی؟ پھر اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کیا مقام رکھتا ہے کہ اس نے عورت اورمرد کو برابر کا مقام عطا کیا ۔
امید ہے ، اس اشکال کا ازالہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں گے۔

یک حدیث پڑھی ،جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکام کا علاج کرنے سے منع فرمایا ہے اوراس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے جذام کی بیماری دور ہوتی ہے۔ حدیث نقل کرنے والے نے آگے لکھا ہے کہ حکما حضرات بھی زکام کا فوری علاج بہتر نہیں سمجھتے ، بلکہ کچھ دنوں کے بعد علاج کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
براہِ کرم بتائیں ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟اور ا س کے مطابق زکام کا فوراً علاج نہیں کرنا چاہیے۔