اگر یہ ڈھیلا ڈھالا اصول لوگوں کے ہاتھ میں پکڑا دیا جائے کہ تم دین کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر جس بات کو چاہو اختیار اور جسے چاہو ترک کر سکتے ہو تو کیا اس سے یہ خطرہ نہیں کہ دین کے معاملے میں بالکل امان ہی اٹھ جائے گی اور جس کے ہاتھ میں یہ نسخہ پکڑا دیا جائے گا وہ پورے دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دے گا؟

دعواے مہدویت کا بہتان

جناب کی ان الفاظ سے کہ ’’وہ جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا‘‘({ FR 1083 }) یہ شبہہ کیا جارہا ہے کہ آپ خود امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے۔

مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعت ِ اسلامی کے موضوع پر تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔انھوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔حاضرین کے دلو ں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی ؈کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟مہربانی فرما کر بذریعۂ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں ۔

حال ہی میں (لاہور کے ایک اخبارکے ذریعے) علما کے بعض حلقوں نے آپ کی تیرہ برس پہلے کی تحریروں کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے ان پر فتوے جڑ جڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں ان تحریروں سے گمراہ نہیں ہوسکا۔ لیکن آج ہی ایک شخص نے مجھے وہ مقالہ دکھایا جس میں آپ کی اور جمعیت العلما پاکستان کے ایک اعلیٰ رکن کی گفتگو درج ہے۔ جس میں آپ کو کہا گیا ہے کہ آپ مہدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کریں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ آپ کے معتقدین آپ کو مہدی سمجھنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میرے بعد مجھے مہدی کوئی نہ کہے۔ لیکن آپ نے اس پر خاموشی اختیار کرلی، جس پر لوگوں کو اور بھی شک گزر رہا ہے۔

اپنے مجد د اور مہدی ہونے کے متعلق کیا راے ہے؟آئندہ چل کر اگر آپ مجدد یا مہدی ہونے کا دعویٰ کریں وہ صحیح ہوگا یا غلط؟

سیّد مودودی ؒ کامعصوم عن الخطا نہ ہونا

کیا آپ معصوم عن الخطا ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا آپ کے اجتہادات پر تنقید جائز ہے؟اگر آپ تنقید سے بالاتر نہیں تو تنقید کرنے والے علما پر کیوں طعن کیا جاتا ہے؟اگر اسلام کی تعلیمات کی تعبیر کا حق صرف جماعت کے علما کے لیے مخصوص کردیا جائے تو اسلامی علوم کو ترقی کے بجاے رکاوٹ نہ ہوگی؟آمرانہ رجحانات ترقی پذیر نہ ہوں گے؟کیا موجودہ اختلاف جب کہ دیانت داری پر مبنی ہو، اِخْتِلافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ({ FR 1084 })نہ ہوگا؟انھی اختلافات میں مختلف ذہنی صلاحیتوں کے جواہر منظر عام پر نہ آجائیں گے جن سے اُمت کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور رہے گا؟

سیّد مودودی ؒ اور فریضہ حج کی ادایگی

آپ نے ابھی تک حج کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ نے اس سوال کے جواب میں یہ الفاظ کہے تھے یا آپ کا یہی نظریہ ہے: ’’موجودہ جدوجہد ہمارے نزدیک حج سے زیادہ اہم ہے؟‘‘

سیّد مودودی ؒ کی ضیافت کے مصارف

آپ کے ہمارے شہر میں آنے پر جو ہزاروں روپے ناجائز تصرف کیے گئے، وہ غلط نہیں ؟ آپ کے آنے کی خوشی اگر لازم تھی تو آپ کے ہاتھوں سے اتنی رقم کا اناج غریبوں اور مساکین میں تقسیم کرادیا جاتا تو بہتر نہ تھا؟

سپاس نامے اور استقبال

ماہر القادری صاحب کے استفسار کے جواب میں اصلاحی صاحب کا مکتوب جو ’’فاران‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے،شاید آپ کی نظر سے گزرا ہو۔میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلے پر اگر آپ خود اظہار راے فرمائیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا اس لیے کہ یہ آپ ہی سے زیادہ براہِ راست متعلق ہے۔ اور آپ کے افعال کی توجیہ کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ خود آپ پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب آپ کی خدمت میں یہ سپاس نامے خود آپ کی رضا مندی سے پیش ہورہے ہیں تو آپ اس تمدنی،اجتماعی اور سیاسی ضرورت کو جائز بھی خیال فرماتے ہوں گے۔ لیکن آپ کن دلائل کی بِنا پر اس حرکت کو درست سمجھتے ہیں ؟ میں دراصل یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں اور غالباً ایک ایسے شخص سے جو ہمیشہ معقولیت پسند ہونے کا دعوے دار رہا ہوں ، یہ بات دریافت کرنا غلط نہیں ہے۔ جواب میں ایک بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھیے گا اور وہ یہ کہ آپ اگر سپاس نامے کے اس پورے عمل کو جائزثابت فرما بھی دیں تو کیا خود آ پ کے اصول کے مطابق احتیاط، دانش کی روش اور شریعت کی اسپرٹ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فتنے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لیے اس سے پرہیز کیا جائے اور کنویں کی منڈیر پر چہل قدمی کرنے کے بجاے ذرا پرے رہا جائے تاکہ پھسل کر کنویں میں گر جانے کا اندیشہ نہ رہے؟
استقبال کے موقع پر پھول برسانے کو میں برا نہیں سمجھتا تھا لیکن اصلاحی صاحب اس کے جواز میں جو ثبوت لائے ہیں ،اس نے مجھے یہ ضد کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ تحفہ، تحفہ ہے اور کسی بڑے آدمی کے استقبال کے موقع پر پھول برسانا اس کی عظمت کا اعتراف اور اس سے اپنی عقیدت کا اظہار ہے اور اس بڑے آدمی کی موجودگی میں ،یہ فعل غالباً پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کی عالی ظرفی اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اسے عام قاعدوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تو وہ بگڑ نہیں جائے گا اور نہ ہی ہمارے پاس کسی کی عالی ظرفی اور اس کے باطن کا حال معلوم کرنے کا کوئی آلہ ہے۔
اگر جواب دیتے وقت جولائی کا فاران پیش نظر رہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس لیے کہ اس میں مخالف وموافق دونوں نقطہ ہاے نظر کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں ۔اس کاجواب میں آپ ہی سے چاہتا ہوں ۔ آپ کے کسی معاون سے نہیں ۔ امید ہے آپ اپنی پہلی فرصت میں اس کا جواب دے دیں گے اور اس استفسار کو لغوسمجھ کر ٹالیں گے نہیں !

غیر کا مضمون سید مودودی کو منسوب کرنا

ترجمان القرآن ۱۹۵۶ئ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کرکے ان کے جواب دیے ہیں ۔ اعتراض نمبر۱۲کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ’’یہ اعتراض نہیں ہے بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارتاً و کنایتاً بھی یہ بات نہیں لکھی…‘‘ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔ اے نے اپنی کتاب’’مودودی مذہب حصہ اوّل‘‘ میں اس عبارت کے لیےترجمان ربیع الثانی ۱۳۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہِ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں ۔