اسلامی ریاست میں عورت کی قیادت

ایک محترمہ اپنے مکتوب میں لکھتی ہیں :
میں عورت کی سربراہی کی حمایت (Favour) نہیں کرتی، اس لیے کہ شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ امامت و قیادت کے فرائض ادا نہیں کرسکتی۔ جسمانی طور پر (Physically) بھی یہ اس کے لیے نہیں ہے۔
حدیث اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ عورت کی سربراہی ناپسندیدہ ہے، مگر کیا اسے ہر حالت میں حرام یا ناجائز کے دائرہ(Category) میں رکھنا درست ہوگا؟
بعض علماء کا خیال ہے کہ ناگزیر حالات (Emergency condition) میں عورت کی سربراہی گوارا کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے حالات میں عورت کو سربراہ بنانا جائز ہے یا حرام اور ناجائز؟ اگر جائز ہے تو Emergencyحالات کون سے ہوں گے اور کون ان کا تعین کرے گا؟
آپ نے اپنی کتاب ’عورت اسلامی معاشرہ میں ‘ لکھا ہے کہ اس معاملہ میں اجماع ہے۔ گزارش یہ ہے کہ اس اجماع کی تفصیلات (Details) بتائیں تاکہ امت کے سامنے صحیح پوزیشن آسکے۔

خواتین کے لیے کوٹا سسٹم

خواتین تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر مردوں سے کافی پیچھے ہیں ۔ انھیں آگے بڑھانے کے لیے کوٹا سسٹم کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ اس کے تحت ہر شعبہ میں خواتین کے لیے تیس (۳۰) فیصد یا اس سے زیادہ سیٹیں محفوظ ہوں گی۔ جب مرد اور خواتین ایک سطح پر آجائیں گے تو یہ سسٹم ختم کر دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات خاندان اور سماج پر کیا پڑیں گے؟

عورت ہی کے لیے حجاب کی پابندی کیوں ؟

عورت کو پردے کا حکم ہے اور مرد بغیر پردے کے رہتا ہے۔ کیا یہ قرینِ انصاف ہے؟ کیا یہ مساوات مرد و زن کے تصور کے خلاف نہیں ہے؟ کیا اس سے عدل و انصاف کے تقاضے مجروح نہیں ہوتے؟ انسان کی عقل کہتی ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو برابر کی سطح پر ہونا چاہیے۔ آخر عورت کے پردے کے لیے کیا وجہ جواز ہے؟

چادر اور چار دیواری

ہمارے ہاں ایک وقت وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ کے حوالہ سے چادر اور چار دیواری کی ٹرم (Term) استعمال کی گئی۔ اس کے خلاف خواتین کی آزادی(Woman Liberty)کی نام نہاد تنظیموں نے خوب شور مچایا اور اسے عورت کی آزادی کے منافی قرار دیا۔ اس مسئلہ میں ہم اسلام کا نقطۂ نظر جاننا چاہیں گے۔

مرد کی قوّامیت

قرآن مجید میں اَلرِّجاَلُ قَوَّامُوْنَ (مرد حاکم ہیں ) کہا گیا ہے۔ اس کے تحت بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خاوند جو بے روزگار ہے اور بیوی کا معاشی بار نہیں اٹھا رہا ہے۔ یا وہ جسمانی طور پر معذور ہے اور اسے جسمانی تحفظ (Physical Protection) نہیں دے سکتا۔ کیا پھر بھی وہ قوّام ہی ہوگا؟

غلاف کعبہ کا جلوس اور جھوٹے الزامات

غلاف کعبہ کی نمائش بجاے خود احداث فی الدین اور بدعت ممنوعہ ہونے کے علاوہ بہت سی دیگر بدعات، منکرات اور حوادث کا موجب ہے۔چنانچہ غلاف کی اس طرح زیارت اور نمائش کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوا ہے ،عورتوں کی بے پردگی اور بے حرمتی ہوئی ہے، جانیں تلف ہوئی ہیں ، نذرانے چڑھاے گئے ہیں ، غلاف کو چوما گیا ہے، اس کے گرد طواف کیا گیا ہے، اس سے اپنی حاجات طلب کی گئی ہیں ،حتیٰ کہ اس کو سجدے کیے گئے ہیں ۔ پھر غلاف کے جلوس باجے کے ساتھ نکالے گئے ہیں اور اسے حضرت مخدوم علی ہجویری کے مزار پر چڑھا یا گیا۔
معترضین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پہلے ہی جذبۂ تنظیم سے عاری اور بدعات میں غرق ہے، اس لیے آپ کو یہ پیشگی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس طرح کے پروگراموں کا لازمی انجام یہی کچھ ہو گا۔ چنانچہ ان نتائج وعواقب کی ذمہ داری آپ پر براہِ راست عائد ہوتی ہے۔

غلافِ کعبہ اورشعائر اﷲ

غلاف کعبہ کو قرآن وحدیث میں شعائر اﷲ کے زمرے میں شمار نہیں کیا گیا،اس لیے عملاً یا اعتقاداً اس کی تقدیس وتعظیم ضروری نہیں ۔یہ بس کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے،اس سے زائد کچھ نہیں ، خواہ یہ کعبے کی نیت سے بنے یا نہ بنے۔کعبے سے کسی طرح کا تعلق رکھنے والی اگر ہرشے کا شمار شعائر اﷲ میں ہونے لگے اور اس کی تعظیم لازم سمجھی جائے تو پھر تعمیر کعبہ کے لیے جانے والا پتھر یا اس طرح کی دوسری اشیا بھی قابل تعظیم ٹھیریں گی۔

غلافِ کعبہ اوربدعتِ مذمومہ

غلاف کی نمائش وزیارت اور اسے جلوس کے ساتھ روانہ کرنا ایک بدعت ہے۔کیوں کہ نبیﷺ اور خلافت راشدہ کے دور میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا، حالاں کہ غلاف اس زمانے میں بھی چڑھایا جاتا تھا۔اگر غلاف کی نمائش کرنا اور اس کا جلوس نکالنا جائز ہے تو پھر ہدی کے اونٹوں کا جلوس کیوں نہ نکالا جائے جنھیں قرآن نے صراحت کے ساتھ شعائر اﷲ قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ بدعت کے مسئلے کو اصولی طور پر واضح کریں اور بتائیں کہ شریعت میں جو بدعت مکروہ ومذموم ہے، اس کی تعریف کیا ہے اور اس کا اطلاق کس قسم کے افعال پر ہوتا ہے۔

غلافِ کعبہ اور تبرک

جو غلاف ابھی چڑھایا نہ گیا ہو بلکہ چڑھانے کے لیے تیار کیا گیا ہو، وہ تو محض کپڑا ہے، آخر وہ متبرک کیسے ہو گیا کہ اس کی زیارت کی اور کرائی جائے اور اسے اہتما م کے ساتھ جلوس کی شکل میں روانہ کیا جائے۔ پھر جو غلاف خانہ کعبہ سے اُترتا ہے، اس کی تعظیم وتکریم کیوں روا نہیں رکھی جاتی اور فقہا نے اس کا عام کپڑے کی طرح استعمال واستفادہ کیوں جائزرکھا ہے۔