قاتل کے اولیا کودیت ادا کرنے پر مجبور کرنا

اگر مقتول کے ورثا دیت لینے پر آمادہ ہیں لیکن قاتل اپنی عزت کے باعث مطلوبہ دیت کی ادائگی سے قطعاً معذور ہے، تو کیا قاضی اس کے ورثا کودیت ادا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے؟ اگر کرسکتا ہے تو کیا اس سے ورثا کو بے گناہ سزا نہیں مل رہی ہے؟

لا وارث قاتل کے اولیا

اگر قاتل کے ورثا ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو وہ اتنے مفلس ہیں کہ دیت ادا کرنا چاہیں بھی تو نہیں ادا کرسکتے،تو کیا ایسی صورت میں قاتل کو قصاص یا دیت کے متبادل سزا(از قسم حبس ومشقّت وغیرہ) تجویز ہوسکتی ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیا صورت اختیار کی جائے گی؟

غلط دوائی سے مریض کی موت کی ذمہ داری

ایک پنساری نے غلطی سے ایک خریدار کو غلط دوا دے دی جس سے خریدار خود بھی ہلاک ہوگیا اور دو معصوم بچے(جن کو خریدار نے وہی دوا بے ضرر سمجھ کردے دی تھی)بھی ضائع ہوئے۔یہ غلطی پنساری سے بالکل نادانستہ ہوئی۔ خون بہا اور خدا کے ہاں معافی کی اب کیاسبیل ہے؟نیز یہ کہ خوں بہا معاف کرنے کا کون مجاز ہے؟

مسلمانوں کے امتیازی حقوق کا معاملہ

اکراہ کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ لفظ قہر (coercion) سے زیادہ وسیع نہیں ہے؟اگر موجودہ زمانے کی ایک ریاست میں مسلمانوں کو ٹیکس میں رعایات ملیں یا شہریت کے زیادہ فوائد حاصل ہوں تو کیا یہ بھی غیر مسلموں کے حق میں اکراہ نہ ہو گا؟یقیناً ایک ایسا تاجر جو تھوڑے منافع پر کام کررہا ہو،اپنی روزی محفوظ رکھنے کے لیے ایسے حالات میں اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔

مرتد کی سزا کا مسئلہ

اگر ایک اسلامی ریاست میں ایک مرتدواجب القتل ہے تو پھر کیا یہ دین میں جبر کا استعمال نہیں ہے؟کیونکہ قرآن کہتا ہے: لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ ({ FR 2176 }) (البقرہ:۲۵۶)

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا … (النسائ:۱۳۷ ) کی تشریح کے سلسلے میں ایک مرزائی دوست نے یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اپنی کتاب’’مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ‘‘ میں یہ لکھتے ہیں کہ جو ایک دفعہ اسلام لا کر اس سے پھر جائے،اسلام نے اُس کے قتل کا حکم دیا ہے۔لیکن قرآن میں دوسری دفعہ ایمان لانا مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہے۔ براہ کرم یہ اشکال رفع فرمائیں ۔

اقامتِ حدود میں احوال کا لحاظ

تفہیمات حصہ دوم صفحہ ۲۹۸۔ اقامتِ حدود میں وقت کے حالات اور ملزم کے حالات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔زمانۂ جنگ میں حد موقوف رکھی جاتی ہے۔قحط کے زمانے میں چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل بیان فرماویں ۔ حضرت سعدؓ کا واقعہ حدود اﷲ کو توڑنے چھوڑنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ انھوں نے کتاب وسنت سے کوئی مستحکم دلیل بیان نہیں فرمائی ہے۔({ FR 1844 })اسی طرح حضرت عمر ؓ کا حضرت حاطب ؓکے غلاموں کو چھوڑ دینا اور حاطبؓ سے عوض دلوانا بھی نوعیت جرم کی بدلی ہوئی کیفیت پر دلالت کرتا ہے،ورنہ مجرموں کو چھوڑ کر غیر مجرم انسان سے عوض دلوانا کیا معنی؟ یقیناً حضرت عمرؓ کے ذہن میں جرم کی نوعیت کچھ سرقہ کی سی نہ ہوگی بلکہ غصب کی سی ہوگی جس کی ضمانت ان کے مولیٰ سے لی گئی۔مہربانی فرما کر اس مسئلے میں کتاب وسنت کے مستحکم دلائل بیان فرما کر مشکور کریں ۔

ڈاڑھی کی مقدار کا مسئلہ

ڈاڑھی کی مقدار کے عدم تعین پر’’ترجمان‘‘میں جو کچھ لکھا گیا ہے،اس سے مجھے تشویش ہے،کیوں کہ بڑے بڑے علما کا متفقہ فتویٰ اس پر موجود ہے کہ ڈاڑھی ایک مشت بھر لمبی ہونی چاہیے اور اس سے کم ڈاڑھی رکھنے والا فاسق ہے۔آپ آخر کن دلائل کی بِنا پر اس اجماعی فتوے کو ردکرتے ہیں ؟

ڈاڑھی کے متعلق نبی ﷺ کی احادیث ِ صحیحہ موجود ہیں جن میں آپؐ نے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اس سے لازم آتا ہے کہ ڈاڑھی کو مطلقاً بڑھایاجائے۔آپ کترنے کی گنجائش نکالنا چاہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ ابن عمرؓکی روایت کے بموجب ایک مشت تک کٹوا دیں ۔اس سے زیادہ کم کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ باقی جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صحابہؓ وتابعین کے حالات میں ان ڈاڑھیوں کی مقدارکا ذکرکہیں شاذ ونادر ہی ملتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف میں یہ مسئلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتاتھا جو آج اسے دے دی گئی ہے، تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اصل میں قرونِ ماضیہ میں لوگ اس کے اس قدر پابند تھے کہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔آپ کو معلوم ہے کہ آج سے چند سال پہلے عام مسلمان ڈاڑھی کے نہ صرف مونڈوانے بلکہ کتروانے تک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پس اس چیز کی وقعت اور قدر لوگوں کے دلوں سے کم نہ کیجیے بلکہ بحال رہنے دیجیے۔

گزارش یہ ہے کہ حکمت ومصلحت شرعی کا تقاضا ہے کہ فروعی مسائل اور ظواہر سنن کی تغییر وتبدیل پر ابتدء ً اصرار نہ کیا جائے اور نہ خود عملاًایسا طرزاختیار کیا جائے جس سے مسلمانوں میں توحش وتنفر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ قتلِ منافقین اور تغییربناے کعبہ سے محترز رہے ۔مجھے یہ تسلیم ہے کہ اِعفا اور تقصیرِ لحیہ کے بارے میں سلف میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جو طرز ِعمل آپ نے اختیار کیا ہے،اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ادھر مقدار قبضہ تک اعفا کے جواز سے آپ کو بھی انکار نہ ہوگا۔پھر کیا یہ مناسب اور حکیمانہ فعل نہ ہوگا کہ عوام کو توحش سے بچانے کے لیے آپ بھی اسی جواز پر عمل کرلیں ، کیوں کہ ظاہری وضع قطع میں جو غلو کی صورت ہے،اس کی اصلاح بنیادی اُمور اور مہمات مسائل کے ذہن نشین کرانے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی سے مخلصانہ وابستگی اور دلی تعلق کی بِنا پر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں ۔اُمید ہے کہ غور فرمائیں گے۔