بنی اسرائیل کا فتح فلسطین سے گریز
سورئہ البقرہ کی آیت ۲۴۳ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ أُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ({ FR 2266 }) کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ ۲۶۶ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے اس خروج کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد انھوں نے فلسطین میں جہاد کرنے سے انکار کر دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو صحراے سینامیں نظر بند کر دیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی نئی نسل جوان ہوئی، انھوں نے حضرت یوشع کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا۔ یہ واقعہ تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن آیت زیر بحث کا انطباق اس واقعے پر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں خوفِ موت کو علت خروج قرار دیا ہے۔ لیکن مصر سے بنی اسرائیل کی خروج کی علت خوفِ موت نہ تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم تھا۔ وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْ({ FR 2267 }) ( الشعرا:۵۲) دوسری بات یہ کہ آیت زیر بحث میں خروج کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مصر سے خروج قابل مذمت نہ تھا بلکہ ہجرت تھی۔ تیسری بات یہ کہفَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ({ FR 2268 }) (البقرہ:۲۴۳) کے الفاظ کا متبادر مفہوم یہی ہے کہ جن لوگوں پر موت طاری کر دی گئی، انھی کو پھر زندہ کر دیا گیا۔ میں نے تفاسیر کا مطالعہ کیا، کہیں بھی آپ والی بات نہیں ملی۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی طرف اشارہ بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ طاغوت کے خوف سے بھاگتے ہوئے نکلے۔ راستے میں ان کو موت دی گئی۔ پھر انھی کو زندہ اٹھایا گیا۔ مہربانی فرما کر اس اشکال کو حل فرمائیں ۔‘‘