پیشگی سودے
کیا اسلام کی رو سے پیشگی سودا بازی (forward transaction) ناجائزہے؟
کیا اسلام کی رو سے پیشگی سودا بازی (forward transaction) ناجائزہے؟
ہرگائوں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ان لوگوں سے زمین دار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے،نہ تنخواہ دیتے ہیں ،بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلّے کی انھیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صورتِ معاملہ کیسی ہے؟
کاروبار میں اسلامی اصولِ اخلاق کا استعمال
ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے ۔موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میں جمعیت ہاے تاجرانِ غلّہ (foodgrain’s associations)قائم ہیں ۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی’’فوڈ گرین سنڈی کیٹس‘‘ بنائیں ۔ گورنمنٹ ہر سنڈی کیٹس کو اشیاے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آئندہ غلے کا سارا کاروبار صرف سنڈی کیٹ({ FR 1634 }) ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصے داروں پر تقسیم ہوجایا کرے گا۔چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈی کیٹس بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلّے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چوں کہ سنڈی کیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے، لہٰذا بنک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے کہ ہم اپنے حصے کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بنک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈی کیٹس سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈی کیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنھیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈی کیٹس دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بنک سے قرض لے،جس کا سود سنڈی کیٹس ادا کرے گی۔ اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پورے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے اور بنک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبارگندا نہ ہونے دیں گے۔ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈی کیٹس نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں ، اختیار کرسکتے ہیں ۔
اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا،وہ سب ہمارے اُصول کی بہت قدرکررہے ہیں ۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اُصول کی خاطر ہر فائدے کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں ۔ان پر ہمارے اس رویے کا اخلاقی اثر اس درجے گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بوری گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے۔ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔آخر راقم الحروف کا جانا طے ہو گیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا،کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسروں کو کرنے دے گا۔اس سلسلے میں حسب ذیل اُمور کے متعلق آپ کی ہدایت درکار ہے۔
سرِدست تو ہمارا اور ان غیر مسلم تاجروں کا ساتھ نبھ رہا ہے،لیکن آگے چل کر اگر یہ ساتھ نہ نبھ سکا تو پھر کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم اپنی ایک الگ’’مسلم ٹریڈنگ ایسوسی ایشن‘‘ بنالیں اور خدا کی نافرمانی سے ہر ممکن حد تک بچ کر اپنا کاروبار چلائیں ؟
اگر کسی کمپنی کے مالک اور ملازم کے درمیان باہمی رضامندی سے یہ معاہدہ ہو جائے کہ اس کے مشاہرہ سے جو رقم ہر ماہ ڈپازٹ کے طور پر کٹے گی، اس کی ادائیگی ریٹائرمنٹ کے وقت ، اس زمانے (رائج الوقت)کی مالیت کے اعتبار سے کی جائے گی تو مالیت کا اندازہ لگانے کا کیا طریقہ ہوگا؟ شریعت نے اس سلسلے میں کیا اصول دیے ہیں ، جن کی رعایت سے کمپنی کے مالک اور ملازم دونوں کے ساتھ انصاف ہوسکے؟
یک صاحب نے اپنے ایک عزیزکو چند لاکھ روپے بطورقرض دیے اور کہاکہ ان روپوں کو ڈالر میں تبدیل کرلیں اورجب واپس کریں تو ڈالر کے حساب سے ہی واپس کریں ۔ کیا قرض دینے اور واپس لینے کا یہ طریقہ شریعت کے مطابق درست ہے؟جب کہ قرض واپس کرنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ ہے؟
ایک صاحب نے مجھے پچاس ہزار روپے یہ کہہ کر دیے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں ۔ ہوایہ کہ مجھے کچھ روپیوں کی بہت سخت ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ میں نے اس میں سے بیس ہزار روپے استعمال کرلیے اور سوچاکہ جب میرے پاس پیسوں کاانتظام ہوجائے گا تو اس رقم کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں گا۔ ذاتی استعمال کے لیے میں نےان صاحب سے اجازت حاصل نہیں کی، بلکہ ان کو بتائے بغیر بہ طور قرض اسے استعمال کرلیا۔ کیامیرے لیے ایسا کرنے کی گنجائش تھی یا میں نے غلط کیا؟
مرکز قومی بحث میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔
میرے کئی جاننے والے ہیں جنہوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دے رکھاہے۔ خرچ برائے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں ، البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔
کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علماء جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوں نہ لیں ؟ بڑے بڑےپڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں ۔ میری اُلجھن دور فرمادیں ۔
ایک صاحب لائف انشورنس کی ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہوگئے ہیں ۔ ادھر ان سے ہمارے کچھ تعلقات بڑھے ہیں ۔ انھوں نے ہمارے پروگراموں میں آنا شروع کیا ہے اور ہمیں بھی اپنے گھر بلاتے ہیں ۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ کیا کسی لائف انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس میں ملازمت کرنے والے کسی شخص کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے؟
مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے، جو بینک اور حکومت کے دیگر اداروں کی طرف سے دیے جانے والے سود کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندستان دار الحرب ہے، اس لیے یہاں کے مسلمان غیر مسلموں سے ہی نہیں ، بل کہ مسلمانوں سے بھی سود لے سکتے ہیں ۔ اگر کوئی ملک واقعی دار الحرب ہے تو کیا اس ملک میں سود کا لین دین مسلمانو ں کے درمیان جائز ہے؟ فقہ کے اس مسئلے کا تعلق قیاس سے ہے یا حدیث سے؟ اس کے جواز میں بہ طور دلیل کوئی حدیث ہے تو بہ راہ مہربانی نقل کیجیے۔ سود کا تعلق گہرے طور پر اخلاقیات سے ہے۔ یہ بات اسلامی روح کے خلاف نظر آ رہی ہے کہ دار الاسلام میں تو سود حرام ہو، لیکن دار الحرب میں مسلمان غیر مسلموں سے سود لے۔ جس طرح زنا اور چوری مسلم ملک میں حرام ہے، اسی طرح سود بھی مسلمانو ں کے لیے ہر ملک اور ہر صورت میں حرام ہونا چاہیے۔ بہ راہ کرم مدلّل طور پر اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں :
پردہ کے بارے میں کچھ احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال ذہن میں ابھرا کہ جو عورتیں ملازمت پیشہ ہیں ان کے لیے پردہ کا التزام کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ دفتروں میں ان کے کام ہی ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر وقت ان کے لیے پردہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً جو خواتین پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں ان کو چوبیس گھنٹے کھڑے کھڑے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے؟