نکاح کے معاملے میں تقدیر اور جدّوجہد

میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اٹھتاہے کہ اگر تقدیر میں زوجیت لکھ دی گئی ہے تو مختلف لڑکیاں دیکھنے دکھانے کا عمل کیوں ہوتاہے؟ایک لڑکی کوکئی لوگ دیکھنے آتے ہیں، پھر اسے پسند نہیں کرتے، جس سے اسے اپنی توہین اور ذلّت محسوس ہوتی ہے اور وہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔ بہت … Read more

نکاح میں گواہ، وکیل اور مہر کی حیثیت

نکاح کے سلسلے میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں ۱-       نکاح میں گواہ کس کی طرف سے ہوتے ہیں؟ لڑکے والوں کی طرف سے، یا لڑکی والوں کی طرف سے؟ ۲-       کیا نکاح میں کسی کو وکیل بنانا ضروری ہے؟ ۳-      مہر کس کی طرف سے طے کیا جاتا ہے؟ اس کی تعیین لڑکے … Read more

عورت کا سفر

زمانے کی تیز رفتار سواریوں نے جب مسافت کو مختصر کردیا ہے تو عورتوں کے سفر کے مسئلے میں اس کے پیش نظر غوروفکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کی روشنی میں حسب ذیل سوالات کے جوابات دیجیے ۱-مثال کے طورپر کوئی دینی اجتماع اتنے فاصلے پرہوتا ہے کہ بس چند گھنٹوں میں … Read more

خطبۂ نکاح میں پڑھی جانے والی آیتیں

خطبۂ نکاح میں جو تین آیتیں (سورہ النساء: کی پہلی آیت، سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲ اور سورۂ الاحزاب کی سترویں اور اکہترویں آیتیں ) پڑھی جاتی ہیں ، کیا ان کا تعلق نکاح سے نہیں ہے؟ یہاں ایک امام صاحب نے جمعے کے خطاب میں یہ بات کہی تو عجیب سی لگی۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرما دیں ۔

ولیمہ کیسا ہو؟

شریعت میں نکاح کے موقع پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس موقع پر آدمی بکرا ذبح کرے اور گوشت کھلائے۔ اگر کسی شخص کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہو اور وہ اتنی وسعت نہ رکھتا ہو کہ بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کرسکے تو کیا محض ٹی پارٹی کردینے سے اللہ کے رسول ﷺ کے حکمِ ولیمہ کا منشا پورا ہوجائے گا؟

عورت کا حق مہر

ایک شخص اپنے اکاؤنٹ میں سے کچھ روپے نکالتا ہے اور اپنی بیوی سے یہ کہہ کر کہ اس میں سے کچھ روپے تمھارے مہر کے ہیں ، وہ سارے روپے اپنے بڑے بھائی کو تجارت کے لیے دے دیتا ہے۔ بھائی نے وہ روپے کبھی واپس نہیں کیے اور بیوی کو وہ روپے کبھی واپس نہیں ملے۔ کیا یہ کہہ دینے سے کہ اس میں تمھارے مہر کے روپے بھی تھے، مہر کی ادائیگی ہوگئی، جب کہ اس بات کو، ۱۷، ۱۸ سال ہوگئے ہیں ۔ یہ بھی بتائیں کہ اگر اب شوہر وہ روپے واپس کرتا ہے تو کیا وہ اسی وقت کے حساب سے واپس کرے گا جس وقت مہر طے کیا گیا تھا یا موجودہ زمانے کے حساب سے؟

جنسی خواہش کی تکمیل کا جائز طریقہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ’اسلامی خاندان‘ کے نام سے ایک مجموعۂ مقالات شائع کیا گیا ہے۔ اس کے ص ۵۲ پر یہ حدیث درج ہے:
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو اچھی لگی۔ آپؐ اسی وقت زوجۂ مطہرہ حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس دوسری خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپؐ نے تنہائی حاصل کی اور اپنی ضرورت پوری کی، پھر فرمایا: جو شخص کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو بھلی لگے، اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جائے، کیوں کہ اس کے پاس وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘
اس حدیث کو پڑھ کر میں سخت پریشانی اور الجھن میں پڑگیا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے غیر محرم عورت پر نگاہ ڈالی اور اتنی دیر تک ڈالی کہ وہ ان کو اچھی لگی۔ کیا واقعی پیغمبر غیر محرم عورت پر نگاہ جماتے تھے؟ کیا واقعی پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو دیکھے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دے اور کہے کہ اگر کوئی عورت تم دیکھو اور وہ بھلی لگے تو فوراً اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ اگرکوئی مرد کنوارا یا بغیر بیوی کے (رنڈوا) ہو تو وہ کہاں جائے؟ اس حدیث سے یہ مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اس وقت عورتیں بے پردہ رہتی تھیں یا ہوسکتا ہے کہ یہ احکامِ پردہ سے پہلے کا واقعہ ہو۔
میری اس الجھن کو رفع فرمائیں ۔ عنایت ہوگی۔

اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہ ہو

ایک لڑکی کی شادی کو دو سال ہوگئے ہیں ۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ زندہ ہیں ۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہ ہوئے تو لڑکی کی ماں کے بہ اصرار پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ اس کا شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے۔ اس عرصے میں لڑکے نے کافی علاج کرایا، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ لڑکی اب بھی شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار ہے، لیکن اس کی ماں خلع کروانا چاہتی ہے۔
اس مسئلے میں بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ اگر کوئی مرد جنسی تعلق کے قابل نہ ہو تو کیا زوجین کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی؟ اگر اس صورت میں بھی دونوں میاں بیوی ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اس کی گنجائش ہے؟ شریعت میں اس مسئلے کے بارے میں کیا احکام ہیں ؟ براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں ، تاکہ دونوں خاندانوں میں تنازع نہ ہو اور خیر کا پہلو نکل آئے۔

طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں

زوجین میں اختلاف اور تنازع ہونے کے بعد بیوی شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہوگئے۔ اس عرصے میں اس نے کوئی ربط و ضبط رکھا نہ شوہر کے گھر آئی۔ کچھ عرصہ پہلے چھے مقامی حضرات نے درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہی۔ وہ شوہر کے گھر اکٹھا ہوئے اور وہاں اس کی موجودگی میں موبائل سے اس کی بیوی سے رابطہ کیا گیا، اس کو کافی سمجھایا بجھایا گیا، مگر وہ آنے کے لیے تیار نہ ہوئی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ بالآخر اسی مجلس میں شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ اس وقت موبائل آن تھا۔ طلاق کے الفاظ سن کر بیوی نے ’بہت اچھا‘ کہا، جسے وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ وہیں طے پایا کہ دوران ِ عدت لڑکی کو ہر ماہ تین ہزار روپے بھیجے جائیں ۔ چنانچہ لڑکی کے کپڑے وغیرہ ایک اٹیچی میں رکھ کر اور عدت کے ایک ماہ کا خرچ تین ہزار روپے بھیج دیے گئے، جسے لڑکی والوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے ماہ بھی تین ہزار روپے بھیجے گئے، جو قبول کرلیے گئے۔ اب ڈھائی ماہ بعد لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے طلاق سنی ہی نہیں ۔
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟